بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

جی بی واٹس ایپ کے استعمال کا حکم


سوال

 آج کل جی بی واٹس ایپ کا نوجوان قوم وملت میں بہت فروغ ہورہا ہے، اس کی من جملہ خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ پیغام ارسال کنندہ، اگر اپنے ارسال کردہ پیغام کو کسی بنا پر حذف کرنا چاہے، تو اسے حذف نہیں کرسکتا، بلکہ وہ جوں کا توں باقی رہتا ہے جب کہ عامۃً زیر استعمال رہنے والے واٹس ایپ میں یہ بات نہیں ہوتی، اسی طرح جی بی واٹس ایپ کا استعمال کنندہ کسی کا بھی واٹس ایپ اسٹیٹس اس کی اجازت کے بغیر اپنے موبائل پر لگا سکتا ہے، جب کہ جو سادہ اور عامۃً استعمال ہونے والا واٹس ایپ ہے، اس میں دوسرے کا اسٹیٹس اپنے واٹس ایپ لگانے کی خاطر اس سے طلب کرنا پڑتا ہے، مزید یہ یعنی جی بی واٹس ایپ ایک حد تک غیر قانونی بھی ہے؛ اسی لیے گوگل کے آفیشل ایپ پلے اسٹور پر بھی وہ موجود نہیں ہے، دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس کا استعمال شرعا درست ہے یا نہیں؟ کچھ علماء کرام اسے انسان کی ذاتیات اور پرائیویسی میں دخل اندازی قرار دے کر ناجائز وحرام قرار دیتے ہیں، جب کہ بعض علماء اسے درست وجائز گردانتے ہیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ مسئلۂ ہذا میں دلائل کی روشنی میں شرعی راہ نمائی فرمائیں، نیز بہ راہ کرم دلائل بھی سپرد قرطاس فرمائیں۔

جواب

اگر کوئی اس غرض سے  جی بی واٹس ایپ  استعمال کرے  کہ  اس کے ذریعے ارسال کیے جانے کے بعد حذف شدہ پیغامات تک بھی رسائی حاصل رہے تو اس غرض فاسد کی وجہ سے اس کا استعمال ناجائز ہوگا،  کیوں کہ حدیث مبارک میں ہے  کہ ’’جس شخص نے کسی قوم کی بات کو کان لگا کر سنا،  جب  وہ اس کو ناپسند کرتے تھے، تو کل قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا۔‘‘ لہذا حذف شدہ پیغامات تک رسائی کی خواہش رکھنا بھی اس ممانعت میں شامل ہوگا، نیز  بسا اوقات  واٹس ایپ اسٹیٹس  کسی کے  ذاتی  امور سے تعلق رکھنے والا ہوتاہے،   جسے وہ کسی اور کو دینا پسند نہیں کرتا تو اس قسم کا اسٹیٹس بھی اجازت کے بغیر حاصل کرنا جائز نہیں ہوگا۔

اگر مذکورہ مفاسد نہ ہوں تو عام حالات میں جی بی واٹس ایپ استعمال کرنا جائز  ہے، تاہم   سائل کے بقول اس کا استعمال  چوں  کہ غیرقانونی  ہے؛   اس  لیے  بہتر  ہے  کہ  اپنے آپ کو خطرے  میں نہ ڈالا جائے۔

الاشباۃ والنظائر لابن نجیم میں ہے:

‌‌"القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها."

(الفن الأول: القواعد الكلیة، ص:23، ط:دار الکتب العلمیة)

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «‌من ‌تحلم ‌بحلم لم يره كلف أن يعقد بين شعيرتين، ولن يفعل، ومن استمع إلى حديث قوم، وهم له كارهون، أو يفرون منه، صب في أذنه الآنك يوم القيامة."

(كتاب التعبير، ج:9، ص:42، ط:دار طوق النجاة)

تفسیر قرطبی میں ہے:

"{ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة } الآية :195.التقدير لاتلقوا أنفسكم بأيديكم كما تقول : لاتفسد حالك برايك و التهلكة (بضم اللام) مصدر من هلك يهلك هلاكًا و هلكًا و تهلكةً أي لاتأخذوا فيما يهلككم.وقال الطبري : قوله و لاتلقوا بأيديكم إلى التهلكة عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه إذ اللفظ يحتمله."

(سورة البقرة،2/ 359، ط:دارالکتب العلمیة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144409100916

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں