بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

جی پی فنڈ کس کی ملکیت ہے؟


سوال

اگر  کچھ  بھائی  مشترک  رہتے تھے  اور تمام اخراجات ان کے درمیان بلا تفریق وتخصیص کے طے  تھے، جن میں ایک بھائی سرکاری نوکر تھا جو تنخواہ کو زمانہ اشتراک میں مشترک خرچ کرتا تھا،  مگر اب جب ان بھائیوں میں تفریق کی لکھیر کھینچی گئی اور تمام اخراجات انفرادی طور پر برداشت کرنا پڑا تو سوال اب یہ ہے کہ کیا اس سرکاری نوکر بھائی کا جو جی پی فنڈ حکومت کی طرف سے جمع ہوتا گیا،  اب تفریق کے بعد اس نے وصول کیا تو  اس  میں  زمانہ اشتراک میں  جو جی پی فنڈ جمع ہوا تھا،  دیگر بھائی اب حق رکھتے ہیں یا وہ تمام اس کی ملکیت ہے ؟

جواب

کوئی  بھی  شخص  جو  رقم  بھی  کماتا ہے  وہ  اس کا تنہا مالک ہوتا ہے اس میں کسی اور کا حق نہیں ہوتا اسی طرح جی پی فنڈ کا بھی وہ تنہا مالک ہوتا ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں جو بھائی سرکاری نوکری کرتا تھا جی پی فنڈ بھی اسی کا ہے ،  کسی اور بھائی کا اس میں کوئی حق نہیں،  اگر چہ وہ زمانہ اشتراک میں جمع کیا گیا تھا۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن) يعني لايملك الأجرة إلا بواحد من هذه الأربعة، والمراد أنه لايستحقها المؤجر إلا بذلك، كما أشار إليه القدوري في مختصره، لأنها لو كانت دينًا لايقال: إنه ملكه المؤجر قبل قبضه، وإذا استحقها المؤجر قبل قبضها، فله المطالبة بها وحبس المستأجر عليها وحبس العين عنه، وله حق الفسخ إن لم يعجل له المستأجر، كذا في المحيط. لكن ليس له بيعها قبل قبضها".

(البحر الرائق ج: 7، ص: 300، ط: دارالكتاب الإسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"مطلب: كل قرض جر نفعًا حرام(قوله:كل قرض جر نفعًا حرام) أي إذا كان مشروطًا، كما علم مما نقله عن البحر".

(رد المحتار ج: 5، ص: 166، ط: سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101753

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں