بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر محرم سے شہوانی باتیں کرنے کے بعد اس کی بیٹی سے نکاح کرنے کا حکم


سوال

 میرا سوال یہ ہے کہ اگر ایک بندہ کسی عورت سے موبائل میسجز پر کافی فری گپ شپ میں لگا رہا ہو، دوران گپ شپ وہ شہوانی بات کریں جس سے لڑکے کو شہوت ہوجاتی ہے یا شہوانی جذبات پیدا ہوتے ہیں، تو کیا اِسی عورت کی بیٹی سے مستقبل میں یہ لڑکا نکاح کرسکتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر اجنبیہ عورت سےموبائل فون کے دوران شہوت ابھارنے والی گفتگو ہوئی ہو جس سے لڑکے کو شہوت ہوگئی تو محض اس شہوت  کی وجہ سے اس عورت کی بیٹی اس مرد پر حرام نہ ہو گی،دونوں کا نکاح جائز ہو گا،حرمتِ مصاہرت قائم نہ ہوگی، البتہ بیوی کے علاوہ کسی عورت سے شہوت بھری باتیں کرنا، بلکہ اجنبیہ سے بلاضرورت بات چیت کرنا جائز نہیں ہے، اگر کسی سے یہ گناہ ہوجائے اسے سچی توبہ و استغفار کرنا چاہیے اور آئندہ غیر محارم سے تعلق سے اجتناب کرنا چاہیے،کیوں کہ اس قسم کی گفتگو بھی زنا کے حکم میں ہے اور یہ دل و زبان کا زنا ہے،اور پھر بعد میں یہی گفتگو عین زنا کا موجب اور سبب بن جاتی ہے۔

حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:

"فإنا ‌نجيز ‌الكلام من النساء الأجانب ومحاورتهن عند الحاجة إلى ذلك ولا نجيز لهن رفع أصواتهن ولا تمطيطها ولا تليينها وتقطيعها لما في ذلك من استمالة الرجال إليهن وتحريك الشهوات منهن ومن هذا لم يجز أن تؤذن المرأة اهـ."

(کتاب الصلاۃ،‌‌فصل فی متعلقات الشروط وفروعہا،ص:242،ط:دار الکتب العملمیۃ)

صحيح بخاری میں ہے:

"حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: لم أر شيئا أشبه باللمم من قول أبي هريرة، ح حدثني محمود، أخبرنا عبد الرزاق، أخبرنا معمر، عن ابن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال: ما رأيت شيئا أشبه باللمم مما قال أبو هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة، فزنا العين النظر، وزنا اللسان المنطق، والنفس تمنى وتشتهي، والفرج يصدق ذلك كله ويكذبه."

(كتاب الاستئذان،باب زنا الجوارح دون الفرج،54/8،ط:مکتبہ سلطانیہ)

"ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے ،انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بات بہتر کوئی بات نہیں جو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے ابن آدم کے لیے ایک حصہ زنا کا لکھ  دیا ہے جو اس سے یقیناً ہو کر رہے گا،چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے،اور زبان کا زنا بات کرنا ہے،اور نفس خواہش اور تمنا کرتا ہے اور شرمگاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے۔"

(بخاری شریف مترجم،از مولانا سحبان محمودؒ،490/3،ط:ادارہ اسلامیات)

فتح الباری لابن حجر  میں ہے:

"قوله: حظه من الزنا، إطلاق الزنا على اللمس والنظر وغيرهما بطريق المجاز؛ لأن كل ذلك من مقدماته. قوله: فزنا العين النظر أي إلى ما لايحل للناظر، وزنا اللسان المنطق في رواية الكشميهني النطق بضم النون بغير ميم في أوله."

(کتاب القدر،باب وما جعلنا الرؤيا التی أريناك الخ،504/11،ط:دارالمعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101953

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں