بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گائے پالنے کے عوض گائے بیچنے پر نفع میں آدھا شریک کرنے کا معاہدہ کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص نے ایک گاۓ خرید کر دوسرے کو پالنے کے لیے دی اور اس دوران  جتنی ضروریات ہوں گی،   گاۓ دینے والا شخص ہی پوری کرے گا۔ اور پانچ چھ مہینے بعد بیچ دیں گے۔  تب جتنے بھی پیسے ملیں گے،  وہ آپس میں آدھا کرکے بٹوارا کریں گے،   کیا یہ جائز ہے؟ اگر جائز نہیں ہے تو متبادل کیا ہے؟

جواب

واضح ہو کہ نفع کی تقسیم دو بندوں میں اس قت ہوتی ہے جب ان کے درمیان شراکت (پارٹنرشپ) کا عقد ہو اور شراکت کے لیے رأس المال (جو چیز بیچی جائے گی) میں دونوں کی ملکیت ضروری ہے۔ اگر کسی ایک کی ملکیت میں گائے ہو اور دوسرا اس کو صرف پال رہا ہو تو اس پالنے کے عوض وہ پالنے والا  "اجرت"  طے کر سکتا ہے۔ تاہم یہ بھی واضح ہو کہ 'اجرت' کا تعین پہلے سے ہونا ضروری ہے، اگر اجرت متعین نہیں ہوئی، بلکہ مجہول رہی تو ایسا عقد کرنا بھی ناجائز ہے؛ کیوں کہ یہ فریقین کے جھگڑے کا سبب بن سکتا ہے۔

صورتِ  مسئولہ میں گائے پالنے کے عوض اس کو بیچنے کے بعد ہونے والے نفع کا آدھا حصہ لینے کا معاہدہ شرعاً جائز نہیں ہے؛ کیوں کہ یہ عقدِ شرکت نہیں۔ اور اس آدھے نفع کو پالنے کی 'اجرت' بھی نہیں کہا جا سکتا؛ اس لیے کہ یہ بات حتمی نہیں ہے کہ کتنا نفع ہوگا، لہذا اجرت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ صورت بھی جائز نہیں۔

البتہ اگر گائے کو پالنے کی اجرت پہلے سے متعین کرلی جائے، مثلاً یہ کہ ہر ماہ پالنے کے عوض 5 ہزار روپے پالنے والے کو دینا طے پاجائے تو مذکورہ صورت جائز ہوجائے گی۔ اس صورت میں پالنے والے کو مقررہ اجرت ملے گی اور گائے بیچنے کے بعد اس کا جو بھی نفع یا نقصان ہو، وہ گائے کے مالک ہی کا ہوگا۔

یا گائے کا مالک گائے کا آدھا حصہ دوسرے شخص کو بیچ دے، اور پھر بعد میں اس کی قیمت معاف کردے، یوں دونوں گائے میں آدھے آدھے شریک ہوجائیں گے، پھر جب گائے فروخت کی جائے تو دونوں اپنے حصے کے بقدر قیمت کے مالک ہوں گے۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6 / 62):

"و الأصل أنّ الربح إنما يستحق عندنا إما بالمال وإما بالعمل وإما بالضمان، أما ثبوت الاستحقاق بالمال فظاهر؛ لأن الربح نماء رأس المال فيكون لمالكه، ولهذا استحق رب المال الربح في المضاربة وأما بالعمل، فإن المضارب يستحق الربح بعمله فكذا الشريك."

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (4 / 193):

"و الأصل في شرط العلم بالأجرة قول النبي صلى الله عليه وسلم: «من استأجر أجيرًا فليعلمه أجره»."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200871

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں