بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گورنمنٹ کو کمرشل گیس اور گھریلو گیس کے یونٹ کے ریٹ میں فرق کرنے کا حق ہے۔


سوال

ہمارا چائے کا ہوٹل ہے جس میں کمر شل گیس لگی ہوئی  ہے ،دسمبر 2021ء سے فی یونٹ" 123"روپے بمع ٹیکس  پڑتا ہے جبکہ ہمارے شہر میں باقی سب کا کمرشل گیس فی یونٹ "58" روپے بمع ٹیکس پڑتا ہے ،جب ہم گیس آفس سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ کا میٹر  l.n.gہے جو باہر ملک سے منگوایا جاتا ہے حالانکہ ہماری اور پورے شہر کی گیس لائن ایک  ہی ہے۔

1۔ کیا ہمارے لیے گھر کی گیس لائن  کمرشل میں استعمال کرنا جائز ہوگا ؟

2۔کیا گورنمنٹ  کو شرعاً یہ حق حاصل ہے کہ وہ کمرشل اور گھریلو گیس کے یو نٹ کے ریٹ میں فرق کرے؟

3۔گورنمنٹ ہر مہینے گیس کے  اضافی یونٹ،  استعمال شدہ یونٹوں کے پر سنٹیج کے حساب سے  بھیجتی ہےمثلاً :500 یونٹ کے استعمال پر40 یونٹ اضافی بھیجتی ہے اور حکومت یہ کہتی ہے کہ اضافی یونٹ گیس پریشر کی وجہ سے ہیں؟ 

جواب

1۔صورت ِ مسئولہ میں سائل کیلیے گھرکی گیس لائن کو گورنمنٹ کی اجازت کے بغیر کمرشل میں استعمال کرنا شرعاً جائز نہیں ہے؛کیونکہ گورنمنٹ نے گھریلو گیس اور کمر شل گیس میں سے   ہر ایک کیلیے الگ الگ نرخ مقرر کر رکھے  ہے۔ باقی سائل کو  فی یونٹ" 123"روپے بمع ٹیکس  پڑتا ہے جبکہ  شہر میں دوسرے لوگوں کو  کمرشل گیس فی یونٹ "58" روپے بمع ٹیکس پڑتا ہے تو سائل کو چاہیے کہ    متعلقہ محکمہ   میں موجود افسران سے بات چیت کرکے اپنا میٹر تبدیل کر واکے شہر کے  دیگر کمرشل میٹر  طرح میٹر  لگوالے۔

2۔گورنمنٹ کو  مالك ہو نے كی  وجہ  سے   کمرشل گیس اور گھریلو گیس کے یو نٹ کے ریٹ میں فرق کرنے کا اختیار ہے۔

3۔اگر گورنمنٹ  کی طرف سے  استعمال  شدہ یونٹوں پر گیس پریشر کے لیے پرسنٹیج کے حساب سے استعال  شدہ یونٹوں کے علاوہ   مزید کچھ یونٹ  مقرر ہیں تو پھر سائل پر ان یونٹوں کے بل کی ادائیگی بھی لازم ہوگی لیکن اگر   گیس پریشر کے لیے یونٹ مقرر نہیں ہیں تو ایسی صورت میں سائل کو چاہیے کہ متعلقہ محکمہ  جاکرقانونی طریقے سے اپنا معاملہ حل كروائے۔

«صحيح مسلم» میں ہے:

عن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من حمل علينا السلاح فليس منا، ومن غشنا فليس منا

(باب قول النبي صلى الله عليه وسلم: "من ‌غشنا فليس منا":99/1،ط:دار احیاء التراث العربی)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 264):

للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء

(فصل في بيان حكم الملك والحق الثابت في المحل:6/264،ط:دار الكتب العلمية)

«الموسوعة الفقهية الكويتية» میں ہے :

 حكم أداء ما فرض على الناس بسبب النوائب:ما فرض على الناس من هذه النوائب  فإما أن يكون بحق أو بغير حق:فإن كان بحق، كالأموال التي يفرضها الإمام على الناس لتجهيز الجيش أو فداء الأسارى إذا لم يكن في بيت المال شيء، فهذا لا يجوز الامتناع عن أدائه، بل هو واجب الأداء؛ لأنه مصلحة عامة لجميع المسلمين، فقد نقل ابن عابدين عن الغنية: قال أبو جعفر البلخي: ما يضربه السلطان على الرعية مصلحة لهم يصير دينا واجب الأداء وحقا مستحقا كالخراج، وقال مشايخنا: وكل ما يضربه الإمام على الناس لمصلحة لهم فالجواب هكذا، حتى أجرة الحراس لحفظ الطريق ونصب الدروب وأبواب السكك، ثم قال: فعلى هذا ما يؤخذ في خوارزم من العامة لإصلاح مسناة الجيحون أو الربض ونحوه من مصالح العامة هو دين واجب الأداء، لا يجوز الامتناع عنه وليس بظلم

(حكم أداء ما فرض على الناس بسبب النوائب:8/ 42،صادر عن: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100542

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں