بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں کے مدرسے میں جمعے کے نماز کا حکم


سوال

ہمارے علاقے تورغر (سابقہ کالا ڈھاکہ) میں ایک  دینی مدرسہ ہے اور کافی پرانہ ہے،اب موجودہ حالت اس کی یہ ہے کہ مدرسہ میں  10 سے 15 تک رہائشی طلباء ہوتے ہے،اور مدرسے کا مسجد بھی ہے،یہ صرف اور صرف سڑک کے کنارے پر واقع ہے،اب وہاں پر تقریباً 30 دکانیں بنی ہوئی ہے،جس میں دو ہوٹل بھی ہے،اور نائی،موٹر سائیکل مکینیک،موچی،سونار اور درزی وغیرہ موجود ہے ،قریب تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر  سرکاری سکول،ہسپتال اور تھانہ بھی ہے، مگر مدرسہ کے قریب کوئی گاؤں نہیں ہے،دوکاندار شام کو اپنے گھروں میں جاتے ہیں،تین گاؤں (نشیب و فراز )کے ساتھ تقریباً ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہے،قریب کوئی گھر نہیں ہے صرف امام صاحب کا گھر ہے،رات کو صرف طلباء ہی رہ جاتے ہیں جو بشمول اساتذہ 20 تک ہوگے،مدرسے والوں نے وہاں جمعہ پڑھانا شروع کر دیا ہے،اور اس کی متصل تنلیغی مرکز بنا ہوا ہے،وہ حضرات وہاں  پرجمعہ کے قائل نہیں ہے وہ جمعہ  نہیں پڑھاتے،اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا وہاں پر جمعہ  پڑھنا درست ہے کہ نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ علماۓ احناف کے نزدیک  گاؤں میں جمعہ کی نماز صحیح ہونے کے لیےاس جگہ مصر  یا فنائے مصر کا ہونا یا قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں) کا ہونا شرط ہے، قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم دو ڈھائی ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تقریباً تمام اشیاء بآسانی مل جاتی ہوں،  جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔

مذکورہ تفصیل کے بعد سوال میں آپ کے علاقے سے  متعلق ذکر کی گئی تفصيلات  کے اعتبار سے  چوں کہ وہاں جمعے کی نماز کے جواز کی تمام شرائط موجود نہیں ہیں ،اورمجموعی آبادی بھی  کم ہے،لہٰذا مذکورہ علاقے  میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں، مذکورہ علاقےوالوں پر جمعہ کی بجائے باجماعت ظہر کی نماز  ادا کرنا لازم ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ويشترط لصحتها) سبعة أشياء:الأول: (المصر وهو ما لا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها) وعليه فتوى أكثرالفقهاء مجتبى؛لظهور التواني في الأحكام،وظاهر المذهب أنه كل موضع له أمير وقاضي قدر على إقامة الحدود۔۔۔۔۔(أو فناؤه) بكسر الفاء (وهو ما) حوله (اتصل به) أو لا كما حرره ابن الكمال وغيره (لأجل مصالحه) كدفن الموتى وركض الخيل."

(کتاب الصلوٰۃ، باب الجمعۃ، ج:2، ص:137، 152، ط: سعید)

وفيه أيضًا:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر".

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:138، ط: سعيد)

            امداد الفتاوی میں ہے:

’’اور کبیرہ اور صغیرہ میں مابہ الفرق اگر آبادی کی مقدار لی جاوے تو اس کا مدار عرف پر ہوگا اور عرف کے تتبع سے معلوم ہوا کہ حکامِ وقت جو کہ حکمائے تمدن بھی ہیں، چار ہزار آبادی کو قصبہ میں شمار کرتے ہیں۔‘‘

(کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ الجمعۃ والعیدین ،ج:1، ص:488، ط: دارالعلوم)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

’’فقہاء نے تصریح فرمائی ہے کہ قصبات اور قریہ کبیرہ میں نمازِ جمعہ  فرض ہے اورادا ہوتی ہے اور یہ بھی تصریح فرمائی ہے کہ چھوٹے قریہ میں باتفاقِ علمائے حنفیہ  جمعہ نہیں ہوتا ۔۔ اور قریہ کا چھوٹا بڑا ہونا مشاہدہ  سے اور کثرت و قلتِ آبادی سے معلوم ہوتا ہے ،جس قریہ میں تین چار ہزار آدمی آباد ہوں گے ظاہرا وہ قریہ کبیرہ بحکمِ قصبہ ہو سکتاہے اور اس سے کم آبادی ہو تو وہ قریہ صغیرہ کہلائے گا۔‘‘

(کتاب الصلوۃ ،باب الجمعۃ ، ج:5، ص:124، ط:دارالاشاعت)

وفيه أيضا:

 ’’سوال : دو گاؤں کے درمیان ایک کوس کا فاصلہ ہے اور پہلے گاؤں کی آبادی تین ہزار کی ہے اور دوسرے گاؤں میں تین مسجدیں ہیں اور جمعہ ہوتا ہے،پہلے گاؤں اور دوسرے گاؤں میں جمعہ فرض ہے یا نہیں؟

جواب : پہلا گاؤں بڑا ہے، اس میں جمعہ فرض ہے اور دوسرا گاؤں بھی اگر ایسا ہی بڑا ہے تو وہاں بھی فرض ہے۔‘‘

(کتاب الصلاۃ، الباب الخامس عشر فی صلاۃ الجمعۃ، تین ہزار کی آبادی میں جمعہ،ج:5، ص:107 ، ط: دارالاشاعت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144412101394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں