بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں میں جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کے لیے کتنی آبادی شرط ہے؟


سوال

 نماز ِجمعہ کے جائز ہونے کے لیے  آبادی کی تعد اد کے متعلق مختلف فتاوٰی میں مندرجہ ذیل مختلف اقوال ہیں۔

فتاوٰی مفتی محمود :  تین ،چار ہزار(2 /350) 

فتاوٰی دارالعلوم دیوبند: 1300 (126/5)

فتاوٰی فریدیہ: 1500 (171/3)

فتاوٰی قاسمیہ: 3000(187/9)

اور فتاوٰی قاسمیہ کے ایک مقام (94 / 9 ) پر ان مختلف اقوال کے مابین کچھ یوں تطبیق معلوم ہورہی ہے کہ بعض مرتبہ آبادی مردم شماری کے اعتبار سے کچھ کم بھی ہو۔ لیکن گلی کو چے ،بازار ،روز مرہ کی اشیاء، ہسپتال ،ا سکول ، تھانہ سرکاری آفیسر اور سرکاری دفاتر و غیر سب موجود ہوں تو ایسی صورت میں آبادی کی حیثیت بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے مردم شماری کم ہونے کے باوجود اسے شہراور قصبہ کے حکم میں شمار کیا جا تا ہے۔

آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ  مسلکِ احناف کے عین موافق کوئی ایک قول فیصل اور فتوٰی صادر فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے قیام  کے لیے شہر /قصبہ /قریہ کبیرہ کا ہو نا شرط ہے ،قریۂ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ جس کی مجموعی آبادی کم ازکم اڑھائی تین ہزار افراد پر مشتمل  ہو اور وہاں روز مرہ کی ضروریات کی تمام چیزیں ملتی  ہوں ، علاج معالجہ کی سہولت میسر  ہو ،ڈاک خانہ وغیرہ  موجود ہو،مظلوم کو انصاف دلانے،پیش آمدہ مقدمات کو نمٹانے  کیلیے قاضی مقرر ہو،تو ایسی جگہ میں جمعہ  کی نماز قائم  کرنا جائز ہےاور جہاں مذکورہ بالا شرائط نہ پائی جائیں وہاں جمعہ  كي نماز کا قیام جائز نہیں ۔

فتاوٰی ہندیہ میں ہے:

"(ولأدائها شرائط في غير المصلي) . منها المصر هكذا في الكافي، والمصر في ظاهر الرواية الموضع الذي يكون فيه مفت وقاض يقيم الحدود وينفذ الأحكام وبلغت أبنيته أبنية منى، هكذا في الظهيرية وفتاوى قاضي خان.وفي الخلاصة وعليه الاعتماد، كذا في التتارخانية ومعنى إقامة الحدود القدرة عليها، هكذا في الغياثية. وكما يجوز أداء الجمعة في المصر يجوز أداؤها في فناء المصر وهو الموضع المعد لمصالح المصر متصلا بالمصر."

(كتاب الصلاة، الباب السادس عشر في صلاة الجمعة، 145/1، ط:رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق قال أبو القاسم: هذا بلا خلاف إذا أذن الوالي أو القاضي ببناء المسجد الجامع وأداء الجمعة لأن هذا مجتهد فيه فإذا اتصل به الحكم صار مجمعا عليه، وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب، كما في المضمرات."

(کتاب الصلاۃ، باب الجمعة، 138/2، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"عن أبي حنيفة رحمه الله: أنه بلدة كبيره فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره، والناس يرجعون إليه فيما يقع من الحوادث، وهذا هو الأصح." 

(کتاب الصلاۃ، فصل بيان شرائط الجمعة، 260/1، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144402100604

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں