میرے بھائی نے اپنے پھوپھی کے بیٹے سے بات کرکے میری شادی اس سے کرائی ، جس میں باقاعدہ، کوئی ایجاب و قبول نہیں ہوا،مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا گیا کہ" آپ کو قبول ہے؟" اور نہ کسی مولوی نے نکاح پڑھایا، گواہ بھی نہیں تھے، بھائی نے لڑکے سے صرف بات کی، اور پھر میری رخصتی ہوئی،اس کے بعد ہمارے درمیان ازدواجی تعلقات بھی قائم ہوئے ہیں،اور لڑکے نے میرے منع کرنے کے باوجود میرے ساتھ غیر فطری عمل(لواطت) بھی کیا ہے،نیز وہ مجھے تین سے زائد مرتبہ یہ بھی کہہ چکا ہے کہ : تم مجھ سے فارغ ہو" ۔
پوچھنا یہ ہے کہ کیا میرا نکاح ہوگیا تھا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ اور اس کے پھوپھی کے بیٹے کے درمیان ایجاب و قبول ہی نہیں ہوا ہےاور نہ ہی اس نکاح میں گواہ تھے تو یہ نکاح منعقد ہی نہیں ہوا،دونوں کا آپس میں کسی قسم کا تعلق قائم کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،لہٰذا سائلہ اپنے پھوپھی زاد بیٹے سے علیحدہ ہوجائے، اور اب تک جو تعلقات قائم ہوئے ہیں اس پر دونوں توبہ واستغفار کریں۔
الدر مع الرد میں ہے:
"(وينعقد) متلبسا (بإيجاب) من أحدهما (وقبول) من الآخر."
(کتاب النکاح،ج3،ص9،ط:سعید)
وفیہ ایضا:
"(و) شرط (حضور) شاهدين (حرين) أو حر وحرتين (مكلفين سامعين قولهما معا)ــ على الأصح (فاهمين) أنه نكاح على المذهب بحر (مسلمين لنكاح مسلمة."
(کتاب النکاح،ج3،ص21۔23،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144306100848
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن