بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 محرم 1447ھ 01 جولائی 2025 ء

دارالافتاء

 

گواہ لےکر آؤ، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں کے الفاظ سے طلاق واقع ہونے کا حکم


سوال

میرے شوہر نے کچھ عرصہ پہلے مجھے طلاق نامہ بھجوایا، جو انہوں نے اپنے ایک دوست کے ذریعے بھیجا تھا۔ ہم نے دارالافتا ءسے معلوم کیا تو انہوں نے بتایا کہ ایک طلاق واقع ہو چکی ہے، اس کے بعد عدت کے دوران رجوع ہوگیا تھا، اب کچھ وقت بعد میرے شوہر نے مجھ سے فون پر جھگڑا کیا اور فون پر کہا:"گواہ لے کر آؤ، گواہ لے کر آؤ، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں"، یہ جملہ انہوں نے دو بار کہا، کیا اس طرح طلاق واقع ہو گئی یا نہیں؟ مہربانی فرما کر اس بارے میں راہ نمائی فرمائیں۔

وضاحت : شوہر کا کہنا ہے کہ میرا ارادہ اس وقت طلاق دینے کا نہیں تھا، بلکہ میرا ارادہ یہ تھا کہ گواہ لے کر آئے گی تو پھر دیکھا جائے گا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے شوہر کا یہ کہنا کہ "گواہ لے کر آؤ، میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" اس میں طلاق کا صیغہ گو کہ حال کا ہے، جب کہ "گواہ لے کر آؤ" کے ساتھ ملا کر اس میں استقبال کا مفہوم بھی  پایا جاتا ہے،لہذا جب شوہر اس کی وضاحت دے رہا ہے کہ اس کی مراد مستقبل میں دینے کی ہے یعنی گواہوں کے لانے کے بعد طلاق دینے کے ارادے کا اظہار ہے ،اس لیے مذکورہ جملہ سے  سائلہ پرمزید کوئی  طلاق واقع نہیں ہوئی۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"في المحيط لو قال بالعربية أطلق لا يكون طلاقا إلا إذا غلب استعماله للحال فيكون طلاقا."

(کتاب الطلاق، الفصل السابع في الطلاق بالألفاظ الفارسية، ج:1، ص:384، ط:سعید)

العقود الدریۃ میں ہے:

"صيغة ‌المضارع لا يقع بها الطلاق إلا إذا غلب في الحال كما صرح به الكمال بن الهمام"

(کتاب الطلاق، ج:1، ص:38، ط:دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144611102834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں