بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گواہ کے بغیر تین طلاق دینا


سوال

میری شادی کو 19 سال ہوگئے ہیں، پہلے میری شادی کے شروع میں میرے شوہر نے مجھے دو بار طلاق دی تھی، تو انہیں میں نے روک دیا تھا، پھر بیچ میں بھی انہوں نے  ایک یا دو بار کہہ دیا ، پھر اب پانچ سال پہلے انہوں نے تین بار صاف صاف بولا کہ میں تمہیں  طلاق دیتا  ہوں، اور مجھے بولا کہ کوئی گواہ نہیں  ہے،  اس طرح طلاق نہیں ہوتی اور مجھے ڈرا کے  چپ کروادیا ، اب میں نے اپنے بہن بھائی سے  اس مسئلہ پر بات چیت کی تو انہوں نے کہا کہ میں حرام زندگی گزارہی ہوں ، آپ راہ نمائی فرمادیں!

جواب

واضح رہے کہ طلاق کے لیے گواہ بنانا مستحب تو ہے؛ تاکہ فریقین  میں سے کوئی بعد میں جھوٹا دعویٰ  نہ کرسکے، تاہم گواہ بنائے بغیر بھی اگر  کوئی  طلاق دے تو  طلاق واقع ہوجاتی ہے؛  حضور  ﷺ  اور  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں طلاق کے کئی واقعات پیش آئے جن میں بغیر گواہی کے طلاق کا اعتبار کیا گیا، اگر طلاق میں گواہی یا دوسروں کا سننا ضروری ہوتا تو گواہ ضرور طلب کیے جاتے، ورنہ کم از کم اعتراف کے موقع پر مکرر اعتراف کروایا جاتا۔ 

لہذا صورتِ  مسئولہ میں  اگر آپ کے شوہر نے  شروع میں دو مرتبہ طلاق دینے کے بعد عدت کے دوران  رجوع کرلیا تھا یعنی زبان سے یہ کہہ دیا تھا کہ میں نے رجوع کرلیا یا میاں بیوی والا تعلق قائم کرلیا تو نکاح برقرار رہا تھا اور آئندہ کے لیے آپ کے شوہر کے پاس ایک طلاق  کا اختیار باقی تھا، بعد ازاں جب آپ کو شوہر نے تیسری طلاق بھی دے دی تو  آپ کا نکاح ختم ہوگیا ، اب شوہر کے لیے آپ کے ساتھ رہنا،  رجوع کرنا  نیز دوبارہ نکاح کرنا جائز نہیں ہے، تین طلاق کے بعد میاں بیوی کا  تعلق قائم کرنا بدکاری کے زمرے میں آتا ہے، اس لیے  فی الفور توبہ واستغفار  کے ساتھ علیحدگی لازم ہے۔ 

تفسیرالقرطبی میں ہے:

"قوله تعالى:{وأشهدوا}أمر بالإشهاد على الطلاق. وقيل: على الرجعة. والظاهر رجوعه إلى الرجعة لا إلى الطلاق. فإن راجع من غير إشهاد ففي صحة الرجعة قولان للفقهاء. وقيل: المعنى وأشهدوا عند الرجعة والفرقة جميعاً. وهذا الإشهاد مندوب إليه عند أبي حنيفة، كقوله تعالى: {وأشهدوا إذا تبايعتم} [البقرة: 282] . وعند الشافعي واجب في الرجعة، مندوب إليه في الفرقة. وفائدة الإشهاد ألايقع بينهما التجاحد، وألايتهم في إمساكها، ولئلايموت أحدهما فيدعي الباقي ثبوت الزوجية". 

(18 / 157، سورۃ الطلاق، ط؛ الھیۃ المصریۃ العامہ لکتاب)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضًا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل: {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(3/187، فصل في حكم الطلاق البائن، کتاب الطلاق، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144210201064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں