بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں سے دور مسافتِ سفر پر رہائش اختیار کرلی تو گاؤں میں نماز کا حکم


سوال

 ایک فیملی اپنا گاؤں چھوڑ کر لاہور میں اپنا ذاتی  مکان بنا کر رہنے لگی ہے،جب کہ لاہور شرعی مسافت پر ہے،  اب جب یہ فیملی گاؤں آئے گی تو پوری نماز پڑھے گی یا قصر؟ جب کہ گاؤں میں ان گا گھر موجود ہے ،جس کی  چابیاں اور مکمل تصرف ان کے پاس ہی ہے اور ان کی زمینیں ان کی ملکیت میں ہیں، خود ہی کاشت کرتے ہیں اور جب کسی کام سے گاؤں آتے ہیں تو  اسی سابق گھر میں رہتے ہیں جس میں ان کی تمام ضروریات کا سامان بھی موجود ہے۔

جواب

واضح ہو کہ شرعی طور پر ایک شخص کے ایک سے زیادہ وطنِ اصلی (جہاں پوری نماز پڑھنی ہوتی ہے) ہوسکتے  ہیں۔

صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ خاندان نے لاہور  میں اس طور پر رہائش اختیار کی ہے کہ موسمی طور پر گاؤں میں بھی رہائش کا انتظام موجود ہے اور گاؤں سے رہائش مکمل ختم نہیں کی تو اس فیملی کے لیے ان کا گاؤں اور لاہور، دونوں وطنِ اصلی ہیں، لہذا جب یہ خاندان گاؤں جائے گاتو مکمل نماز ادا کرے گا، قصر نہیں کرےگا۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (2 / 147):

"وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار ثم قال وهذا جواب واقعة ابتلينا بها وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد، ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لايبطل أحدهما بالآخر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200618

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں