بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس کمپریسر مشین لگانے کا حکم


سوال

مسئلہ یہ ہے جس بلڈنگ میں ہماری رہائش ہے عائشہ منزل بلاک 7 الف ہی ایر یا ؛ اس میں کل 39 فلیٹ ہیں جس میں سے تقریباً 70 فیصد کم و بیش 25/30 فلیٹ والوں نے اپنے گھروں میں گیس کھینچنے والی کمپریسر مشین لگا رکھی ہے،  جن کے استعمال کی وجہ سے جن کے فلیٹ میں یہ مشین نہیں لگی ہوئی ہے، ان میں گیس نہیں آتی، کمپریسر مشین نہ لگانے والے فلیٹوں میں  ہمارا فلیٹ بھی شامل ہے ۔ 

گیس لوڈ شیڈنگ کے بعد جو گیس آنے کا ٹائم ہے اس میں صبح کے پورے ٹائم میں بمشکل ایک یا ڈیڑھ  گھنٹے  گیسں آتی ہے کبھی پریشر زیادہ تو کبھی وہ بھی نہیں آتی ، جبکہ شام میں تو بالکل نہیں آتی 24 گھنٹوں میں سے صبح کے وقت  تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹےگیس آتی ہے،  جس کی وجہ سے بے حد تکلیف و اذیت کا سامنا ہے،  اور یہ صورت حال یونین کی کمیٹی والوں کو بھی بتائی ہے،  لیکن مشین لگانے کے منع کرنے پر کچھ لوگوں نے  ناگواری کا اظہار کیا اور کرتے ہیں۔

سوال کے دو پہلو ہیں:

1۔ جن خواتین و حضرات نے یہ کمپریسر مشین  لگائی ہوئی ہیں ان کا یہ عمل کیساہے؟

2۔ جو خواتین و حضرات ان کمپریسر مشین  سے  حاصل شدہ گیس پر کھانے پکا کر کھا ر ہے ہیں اور اپنی مختلف ضروریات میں گیس استعمال کر رہے ہیں،   ان کا یہ استعمال کیسا ہے؟

جواب

1۔ گیس کی قلت کی صورت میں  زیادہ گیس کھینچنے کے لیے گھرمیں گیس پمپ  لگانا شرعاً جائز نہیں ہے؛  ناجائز ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کمپریسر مشین کے استعمال سے دوسرے لوگوں کو تکلیف اور ضرر لاحق ہوتا ہے کہ مشین نہ لگانے والے افراد  گیس کمپنی کی جانب سے فراہم کردہ اپنے حق سے بھی محروم رہتے ہیں، جیساکہ کہ مشاہدہ اور سائل کا بیان بھی ہے، پس جو چیز دوسروں  کی تکلیف کا ذریعہ بنے اس کا استعمال شرعاً   جائز نہیں ہوتا ہے۔

کمپریسر مشین لگانے کے نا جائز ہونے کی دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس کا استعمال   قانوناً بھی جرم ہے؛  اورجو قانون خلاف شرع نہ ہو تو اس  کی خلاف ورزی شرعا بھی  ناجائز ہے۔ اس طرح یہ عمل شرعا و قانونا  دونوں  اعتبار  سے نا جائز ہے۔

واضح  رہے کہ مشین  لگانے والے اپنے فعل کے جواز پر جو منطق پیش کرتے ہیں، اس کا حاصل اتنا ہی ہے کہ  دوسرے لوگ غلطی کرتے ہیں، لہذا  ہم بھی کرتے ہیں، اس منطق میں شرعا و قانونا کوئی وزن نہیں، کہ غلطی عام ہونے کی وجہ سے جائز و قانونی بن جائے۔

2۔ جائز نہیں،تاہم اس گیس پر پکنے والا کھانا حرام نہیں ہوگا ۔

سنن ابن ماجه میں ہے:

"عن أبي صرمة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «من ضار أضر الله به، ومن شاق شق الله عليه»".

(  کتاب الاحکام، باب من بنى في حقه ما يضر بجاره، ٢ / ٧٨٥،، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فیض القدیر للمناويمیں ہے:

"(لا ضرر) أي لايضر الرجل أخاه فينقصه شيئاً من حقه (ولا ضرار) فعال بكسر أوله أي لايجازي من ضره بإدخال الضرر عليه بل يعفو، فالضرر فعل واحد والضرار فعل اثنين أو الضرر ابتداء الفعل والضرار الجزاء عليه والأول إلحاق مفسدة بالغير مطلقاً والثاني إلحاقها به على وجه المقابلة، أي كل منهما يقصد ضرر صاحبه بغير جهة الاعتداء بالمثل، وقال الحرالي: الضر بالفتح والضم ما يؤلم الظاهر من الجسم وما يتصل بمحسوسه في مقابلة الأذى وهو إيلام النفس وما يتصل بأحوالها وتشعر الضمة في الضر بأنه عن قهر وعلو والفتحة بأنه ما يكون من مماثل أو نحوه اه. وفيه تحريم سائر أنواع الضرر إلا بدليل لأن النكرة في سياق النفي تعم وفيه حذف أصله لا لحوق أو إلحاق أو لا فعل ضرر أو ضرار بأحد في ديننا أي لايجوز شرعاً إلا لموجب خاص".

(حرف "لا"، ٦ / ٤٣١،  برقم: ١٣٣٧٣، ط: المكتبة التجارية الكبرى – مصر)

رد المحتار علي الدر المختارمیں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله)؛ لحديث: «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره".

 وفي الرد:

"والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال.

(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى".

(کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع، ٦ / ٣٩٨، ط: سعید)

احكام القرآن لظفر احمد عثمانيمیں ہے:

"و هذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالي أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيها علي أن طاعتهم واجبة ماداموا علي العمل."

(طاعة الأمير فيما لايخالف الشرع، النساء: ٥٩، ٢ / ٢٩١ - ٢٩٢، ط: إدارة القرآن)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507101216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں