بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غصب اور قبضہ سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ اصل مالک کی ہی رہتی ہے


سوال

میں کراچی میں تھا ،مجھے کراچی میں زمین لینی تھی ،لیکن بڑے بھائی نے کہا کہ شکار پور میں لے لو ،میں نے اس کو پیسے بھیجے کہ میرے لیے وہاں زمین خرید لو ،تو اس نے میرے لیے زمین خرید لی  ، بڑے بھائی نے اپنے نام سے خریدی ،ہم سب الگ کاروبار کرتے تھے ، شرکت نہیں تھی،پھر اس زمین پر چھوٹا بھائی قابض ہو گیا ،میں فساد کی وجہ سے خاموش رہا ،ساے بھائی ایک طرف ہو گئے اور مجھے علیحدہ کردیا ، ابھی اس چھوٹے بھائی کا انتقال ہو گیا ،اس کے بچے اس جگہ رہ رہے ہیں ،میں نے ابھی اپنے بڑے بھائی کو کہا کہ یہ جگہ تو میری ہے ،مجھے دی جائے ،لیکن بڑے بھائی کہہ رہے ہیں کہ "زمین تو آپ کے پیسوں سے خریدی ہے لیکن بڑا میں ہوں اور میں نے ہی خریدی ہے تو پھر جب چھوٹا بھائی اس میں آباد ہو گیا تو یہ اسی کی ہو گئی"،اس صورت میں آپ بتائیں کہ پیسے میرے ہیں ،خریدی میرے لیے گئی ،اور مجھےدیے بغیر وہ اس پر قابض ہو گئے ،زمین میری ہے یا چھوٹے بھائی کی اولاد کی ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو کچھ لکھا ہے اگر واقعہ کے مطابق ہے کہ زمین سائل کے پیسوں سے سائل کے لیے  خریدی گئی تھی  اور  پھر چھوٹا بھائی سائل کی اجازت کے بغیر اس پر قابض ہو گیا  تھا ،سائل نے بطورِ ملکیت کے اس کو نہیں دی تھی  تو ایسی صورت میں یہ زمین سائل ہی کی ملکیت  ہے ،چھوٹے بھائی کے محض قبضہ کرنے اور اس میں رہنے  کی وجہ  سےمذکورہ زمین   اس کی ملکیت  نہیں ہوئی ہے،بلکہ چھوٹے بھائی کا سائل کی اجازت کے بغیر اس پر قبضہ کرنا اور اس میں رہنا شرعاً جائز  نہیں تھا ، اس کی وجہ سے وہ گناہ گار ہوا ہے ؛ لہذا اب مذكوره بھائی کی اولاد پر مذکورہ  زمين سائل كے  حوالہ کرنا شرعاً لازم ہے  ،اور سائل کے بڑے بھائی یہ کہنا کہ"زمین تو آپ کے پیسوں سے خریدی تھی ، لیکن  چونکہ بڑا میں تھا اور میں نے ہی خریدی تھی  اور جب چھوٹا بھائی اس میں آباد ہو گیا تو اب  یہ اسی کی ہو گئی ہے "تو اس کی یہ بات قطعاً غیر شرعی اور  غیر کے مال میں ناجائز  تصرف ہے۔

الدر المختار ميں هے:

"(وحكمه الإثم لمن علم أنه مال الغير ورد العين قائمة )"

(رد المحتار ،كتاب الغصب،ج:6،ص:180،ط:سعيد)

مبسوط للسرخسي ميں هے:

"لأن ‌فعل ‌الوكيل كفعل الموكل بنفسه حين امتثل أمره فيما صنع "

(كتاب الوكالة،ج:19،ص:97،ط:دار المعرفه بيروت)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن سعيد بن زيد بن عمرو بن نفيل، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من اقتطع شبرا من الأرض ظلما، طوقه الله إياه يوم القيامة من سبع أرضين»

(کتاب المساقات،باب تحریم الظلم و غصب الارضوغیرہا،ج:3،ص:1230،ط:دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:

"جس کسی نے زمین کی ایک بالشت (بھی)ناحق روک لی ،قیامت کے دن اللہ تعالی اسے سات زمینوں سے اس کاطوق (بناکر)پہنائے گا۔"

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144304100977

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں