بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس نہ ہونے کی صورت میں کمپریسر لگانے کا حکم


سوال

پچھلے پانچ برس قبل ملک بھر میں گیس بغیر کسی پریشانی کے وافر مقدار میں ہوا کرتی تھی ،لیکن اب صورتِ حال مختلف ہے،گیس چوں کہ اشد ضرورت ہے ،تمام پکائی کا کا م اس کے بغیر ممکن نہیں، اور لکڑیاں جلانے میں شدید نقصانا ت کا امکان ہوتاہے ،تو کوئی پانچ برس سے ملک بھر میں گیس کا بحران ہے ،اور گیس کی ہر جگہ دشواری چل رہی ہے،بغیر مشین (کمپریسر )لگائے کوئی چارہ کار نہیں ہے ،یعنی مشین لگانا ضروری بن گیا ہے،جب تک مشین نہیں لگائیں گے ،تو گیس نہیں آئے گی ،بعض حضرات نے اس کا عدم جواز بتایا ہےکہ اس طرح کرنا بالکل ناجائز ہے،اور سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ گیس ادارے کی طرف سے مشین لگانے کی بالکل اجازت نہیں ہے،بہر حال ملک میں یہ ہر گھر کا مسئلہ ہے،اب مفتیان کرام مشین لگوانے  کی گنجائش کے حوالہ سے کیا آگاہی فراہم فرماتے ہیں ؟اس اشد ضرورت کو ملحوظِ نظر رکھتےہوئےاگر کوئی گنجائش کی صورت ہو توجواب عنایت فرماکر عند اللہ ماجور ہوں۔ 

جواب

واضح رہے کہ شریعت مطہر ہ نے ہر اس عمل کو ناجائز قرار دیا ہے جس سے عام لوگوں کو نقصان اور ضرر پہنچتاہو،لہذا صورتِ مسئولہ میں گیس کھینچنے والی مذکورہ مشین  لگانے کی صورت میں مشین لگانے والا عام لوگوں  کو نقصان اور ضررپہنچانے کا باعث بن رہا ہے  ،نیز گیس فراہم کرنے والی کمپنی کی جانب سے بھی قانوناً اس کی اجازت نہیں ہے،لہذا ان وجوہات کی بناء  پر  مذکورہ مشین  کا لگوانا شرعاً جائز نہیں  ہے۔

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"يتحمل الضرر الخاص؛ لأجل دفع ضرر العام.

وهذا مقيد لقولهم: الضرر لا يزال بمثله وعليه فروع كثيرة."

(الفن الأول ،‌‌القاعدة الخامسة: الضرر يزال،ص:72،ط:دار الكتب العلمية)

‌درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:

"والمظلوم لا يظلم غيره".       

    (كتاب الوكالة، باب الوكالة بالخصومة ج:2،ص:292، ط: دار إحياء الكتب العربية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله)؛ لحديث: «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره".

" والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد، وعليه الفتوى، كذا في الكافي، وعن أبي يوسف: كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار، وعن محمد الاحتكار في الثياب، ابن كمال(قوله: كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخناً لا عسلاً وسمناً، در منتقى".

( کتاب الحظر و الإباحة، فصل في البیع،ج:6، ص:398، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144411100239

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں