بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیس کی سپلائی میں استعمال ہونے والی کی گاڑی اور سلینڈروں پرزکات نہیں


سوال

1- ہمارا گیس سپلائی کا کام ہے، گیس سپلائی کے لیے ہمارے پاس چند گاڑیاں اور گیس کے سلینڈر ہیں، یہ گاڑیاں ہمارے ذاتی استعمال میں نہیں، اب اِن گاڑیوں اور سلینڈروں پر زکات آئے گی یانہیں؟

2- ہم نے آگے فروخت کرنے کی غرض سے ایک پلاٹ لیاہے، اس پر زکات آئے گی یانہیں؟

جواب

1- صورتِ مسئولہ میں جن گاڑیوں اور سلینڈروں میں گیس کی سپلائی کی جاتی ہے، اُن پر زکات نہیں، تاہم گیس اور اس کو فروخت ہونے پر اُس کی جو آمدن آئے، اُس پر اگر سال گزرجائے، اور وہ نصاب کے بقد ر ہو، تو اس میں سے زکات نکالنا ضروری ہے۔

2- صورتِ مسئولہ میں جو پلاٹ آگے بیچنے کے لیے خریدا ہے، اس کی موجودہ قیمت پر زکات آئےگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وكذلك آلات المحترفين) أي سواء كانت مما لا تستهلك عينه في الانتفاع كالقدوم والمبرد أو تستهلك، لكن هذا منه ما لا يبقى أثر عينه، كصابون وجرض الغسال، ومنه ما يبقى كعصفر وزعفران لصباغ ودهن وعفص لدباغ فلا زكاة في الأولين لأن ما يأخذه من الأجرة بمقابلة العمل. وفي الأخير الزكاة إذا حال عليه الحول لأن المأخوذ بمقابلة العين كما في الفتح. قال: وقوارير العطارين، ولحم الخيل والحمير المشتراة للتجارة ومقاودها وجلالها إن كان من غرض المشتري بيعها بها ففيها الزكاة، وإلا فلا."

(كتاب الزكاة، ٢٦٥/٢، ط:سعيد)

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"قال - رحمه الله - (وفي عروض تجارة بلغت نصاب ورق أو ذهب) يعني في عروض التجارة يجب ربع العشر إذا بلغت قيمتها من الذهب أو الفضة نصابا."

(كتاب الزكاة، باب زكاة المال، ٢٧٩/١، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144509100541

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں