بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گروی میں گھر لے کر فائدہ اٹھانے کا حکم؟


سوال

ہم کہیں گروی میں گھر لینا چاہتے ہیں پانچ چھ لاکھ روپے میں، گیس اور بجلی کا بل ہم خود دیں گے کرایہ نہیں دیں گے، اور ایک سال کے ایگریمنٹ کے بعد ہم گھر واپس اس گھر کے مالک کے حوالہ کردیں گے، اور ہماری رقم ہمیں واپس مل جائے گی، تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ قرض کی وصولیابی کو یقینی بنانے کے لیے گروی میں مقروض سے مکان یا کوئی چیز لے کر اپنے پاس رکھنا جائز ہے، لیکن اس دوران گروی میں رکھی ہوئی  چیز یا مکان سے کوئی بھی فائدہ ومنفعت حاصل کرنا جائز نہیں، یہ سود کے حکم میں ہے۔

 

   لہذا آپ لوگ اگر کسی کو قرض دے کر گروی کے طور پر مکان لينا چاہتے ہیں تو ٹھیک ہے، لیکن  آپ لوگوں کے لیے اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہوگا۔ البتہ اگر آپ لوگ  مالک کی رضامندی سے کرایہ پر رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہو، لیکن پھر  یہ معاملہ گروی کا نہیں ہوگا، بلکہ اس پر  اِجارہ (کرایہ داری) کے احکام جا ری ہوں گے۔ لیکن ملحوظ رہے کہ اس صورت میں  قرض کی وجہ سے کرایہ میں کمی نہیں کی جائے گی،  کیوں کہ یہ بھی سود کے حکم میں ہے۔

اگر سوال کا یہ مطلب ہو کہ مکان گروی پر لے کر  بند رکھا جائے گا، استعمال نہیں کیا جائےگا، اور  اس دوران جو تھوڑا بہت بل آتا ہے وہ بھی   آپ لوگ ہی ادا کریں گے تو یہ جائز ہے، یہ آپ لوگوں کا مقروض کے ساتھ مزید احسان کا معاملہ ہوگا، جو اللہ تعالی کے ہاں ایک مستحسن صفت ہے، اللہ تعالی کو ایسے لوگ بہت پسند ہیں، قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ہے: اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ، کہ اللہ تعالی احسان کا معاملہ کرنے والے کو محبوب رکھتے ہیں۔

شرح المصابيح لابن الملك میں ہے:

"قالت عائشة رضي الله عنها: إن النبي صلى الله عليه وسلم اشترى طعامًا من يهودي إلى أجل، ورهنه درعًا من حديد. وهذا يدل على جواز الشراء بالنسيئة، وعلى جواز الرهن بالديون."

(شرح المصابيح لابن الملك: باب السلم والرهن (3/ 442)، ط. إدارة الثقافة الإسلامية،الطبعة: الأولى، 1433 هـ - 2012 م)

 

فتاوی شامی میں ہے:

" إذا شرط الانتفاع بالرهن كالاستخدام والركوب والزراعة واللبس وشرب اللبن وأكل الثمر فإن الكل ربا حرام كما في الجواهر و النتف ا هـ ط."

 (كتاب البيوع، باب الربا،  مطلب في الإبراء عن الربا (5/170)، ط.سعيد)

النتف فی الفتاوی للسعدی  میں ہے:

وأما الربا في الرهن فان ذلك على وجهين، أحدهما في الانتفاع بالرهن، والآخر باستهلاك ما يخرج من الرهن.

 فاما الانتفاع بالرهن مثل العبد يستخدمه والدابة يركبها والارض يزرعها والثوب يلبسه والفرش يبسطه ونحوها، فاما الاستهلاك ما يخرج منه فمثل الأمة يسترضعها الصبية والبقر يشرب من لبنها والغنم يجز صوفها والشجر يأكل ثمارها فان ذلك كله ربا ولا يحل ذلك لانه ليس للمرتهن في الرهن حق سوى الحفظ.

(النتف في الفتاوى للسعدي: «أنواع الربا»، «الربا في الرهن» (ص:486)،ط. دار الفرقان / مؤسسة الرسالة، عمان الأردن، سنة النشر 1404=1984)

وفيه أيضًا:

فأما في القروض فهو على وجهين:  أحدها أن يقرض عشرة دراهم باحد عشر درهما أو باثني عشر ونحوها، والآخر ان يجر الى نفسه منفعة بذلك القرض او تجر اليه، وهو ان يبيعه المستقرض شيئا بارخص مما يباع او يؤجره او يهبه او يضيفه او يتصدق عليه بصدقة او يعمل له عملا يعينه على اموره او يعيره عارية أو يشتري منه شيئا بأغلى مما يشتري او يستأجر اجارة باكثر مما يستأجر ونحوها ولو لم يكن سبب ذلك هذا القرض لما كان ذلك الفعل فان ذلك ربا. وعلى ذلك قول ابراهيم النخعي كل دين جر منفعة لا خير فيه.

(النتف في الفتاوى للسعدي: «أنواع الربا»، «الربا في القروض» (ص:484)،ط. دار الفرقان / مؤسسة الرسالة، عمان الأردن، سنة النشر 1404=1984)

                وَلا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَيْنَكُمْ قَالَ: الْفَضْلُ فِي كُلِّ شَيْءٍ أَمَرَهُمْ أَنْ يُلْقُوا بَعْضُهُمْ عَنْ بَعْضٍ فَيَأْخُذُوا بِالْفَضْلِ بَيْنَهُمْ وَيَتَعَاطَوهُ، وَيَرْحَمَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ مِنَ الْفَضْلِ كُلِّهِ، وَالْعَفْوُ وَالنَّفَقَةُ، وَكُلُّ شَيْءٍ يَكُونُ بَيْنَ النَّاسِ.

( تفسير القرآن العظيم لابن أبي حاتم 2/ 447 سورة البقرة (الآية : 237) ط : مكتبة نزار مصطفى الباز)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144205200964

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں