بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی میں نماز کا حکم


سوال

گاڑی میں نماز کا حکم کیا ہے؟

جواب

گاڑی خود چلارہے ہوں یا گاڑی رکواکر زمین پر نماز ادا کرنا ممکن ہو تو گاڑی روک کر زمین پر  تمام شرائط اور فرائض کے مطابق نماز ادا کرنا چاہیے۔ تاہم اگر گاڑی سے اتر کر نماز پڑھنے کی کوئی صورت نہ بن سکے تو گاڑی میں فرض نماز ادا کرتے ہوئے استقبال قبلہ (قبلہ رو ہونا)اور قیام(یعنی  کھڑے ہو کر نماز پڑھنا) ضروری ہے، البتہ اگر کوئی  سیٹ وغیرہ کے سہارے سے بھی گاڑی میں نماز نہ پڑھ سکے اور اتر کر نماز پڑھنے کی بھی صورت نہ بن سکے تو بوجہ عذر گاڑی میں بیٹھ کر یا جس طرح ممکن ہو نماز پڑھ لے، لیکن بعد میں اس نماز کا اعادہ کرے۔  

البتہ نفل نماز دورانِ سفر  (شہر سے باہر) جس رخ پر گاڑی یا سواری   جارہی ہو اس رخ پر پڑھنا بلا عذر بھی مطلقاً جائز ہے، مگر اس سے وہ سواری مراد ہے جس میں چلتے ہوئے قبلہ رو نماز پڑھنے کی رعایت نہ رکھی جاسکتی ہو، جیسے اونٹ، گھوڑا، موٹر سائیکل، کار ،  بس وغیرہ؛ لیکن اگر سواری کشادہ ہو جیسے ریل، وغیرہ، تو اس میں نماز نفل کے لیے بھی قبلہ رو ہونا ضروری ہوگا؛ اس لیے کہ موجودہ دور کی بڑی سواریوں میں قبلہ رو ہونا ممکن ہے، اس وجہ سے ان میں استقبالِ قبلہ ضروری ہے، جیسے کشتی میں استقبال قبلہ ضروری ہے۔نیز  نفل بلا عذر بیٹھ کر پڑھنا بھی درست ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو ‌قدر ‌على ‌القيام ‌متكئا الصحيح أنه يصلي قائما متكئا ولا يجزيه غير ذلك لو قدر على أن يعتمد على عصا أو على خادم له فإنه يقوم ويتكئ، كذا في التبيين."

(كتاب الصلاة، الباب الرابع عشر في صلاة المريض، ج:1، ص:136، ط:رشيدية)

مراقی الفلاح شرح نور الایضاح میں ہے:

"وقالا" أي أبو يوسف ومحمد رحمهما الله تعالى "لا تصح" جالسا "إلا من عذر وهو الأظهر" لحديث ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم سئل عن الصلاة في السفينة فقال: "صل فيها قائما إلا أن تخاف الغرق" وقال مثله لجعفر ولأن القيام ركن فلا يترك إلا بعذر محقق لا موهوم ۔۔۔۔

و" إذا كانت سائرة "يتوجه المصلي فيها إلى القبلة" لقدرته على فرض الاستقبال "عند افتتاح الصلاة وكلما استدارت" السفينة "عنها" أي القبلة "يتوجه" المصلي باستدارتها "إليها" أي القبلة "في خلال الصلاة" .

(کتاب الصلاة، باب في النوافل، فصل في الصلاة في السفينة، ص:155، 156، ط:المكتبة العصرية)

البحر الرائق میں ہے:

"الأسير ‌في ‌يد ‌العدو إذا منعه الكافر عن الوضوء والصلاة يتيمم ويصلي بالإيماء ثم يعيد إذا خرج وكذا لو قال لعبده إن توضأت حبستك أو قتلتك، فإنه يصلي بالتيمم ثم يعيد كالمحبوس؛ لأن طهارة التيمم لم تظهر في منع وجوب الإعادة وفي التجنيس رجل أراد أن يتوضأ فمنعه إنسان عن أن يتوضأ بوعيد قيل ينبغي أن يتيمم ويصلي ثم يعيد الصلاة بعد ما زال عنه؛ لأن هذا عذر جاء من قبل العباد فلا يسقط فرض الوضوء عنه اهـ.

فعلم منه أن العذر إن كان من قبل الله تعالى لا تجب الإعادة وإن كان من قبل العبد وجبت الإعادة ".

(کتاب الطهارة، باب التيمم، شرائط التيمم، ج:1، ص:149، ط:دار الكتاب الاسلامى)

حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وينتفل" أي جاز له التنفل بل ندب له "راكبا خارج المصر" يعني خارج العمران". 

(کتاب الصلاة، فصل في صلاة النفل جالسا وفي الصلاة على الدابة وصلاة الماشي، ص:405، ط:دار الکتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وأما في النفل فتجوز على المحمل والعجلة مطلقا) 

(قوله مطلقا) أي سواء كانت واقفة أو سائرة على القبلة أو لا، قادر على النزول أو لا، طرف العجلة على الدابة أو لا ح".

(کتاب الصلاة، باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:42، ط:سعيد) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومن أراد أن يصلي في سفينة تطوعا أو فريضة  فعليه أن يستقبل القبلة ولا يجوز له أن يصلي حيثما كان وجهه. كذا في الخلاصة حتى لو دارت السفينة وهو يصلي توجه إلى القبلة حيث دارت. كذا في شرح منية المصلي لابن أمير الحاج".

(كتاب الصلاة، الباب الثالث في شروط الصلاة، الفصل الثالث في استقبال القبلة، ج:1، ص:63، 64، ط:رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100190

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں