بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جمادى الاخرى 1446ھ 13 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

گرمیوں میں لکڑیاں خریدکر سردیوں میں مہنگی فروخت کرنے کا حکم


سوال

گرمیوں میں لکڑیاں خرید کر گودام میں رکھ لینا اور سردی میں جب لکڑی کے ریٹ بڑھ جائیں تو فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جن چیزوں میں درج ذیل صفات پائی جائیں ان کی ذخیرہ اندوزی منع ہے:

(1) وہ چیز عرف عام میں انسان یا جانور کی غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہو۔ 

(2) یہ اشیاء ایسے مقامات سے خریدی گئی ہوں جن  کی پیداوار اس شہر میں آتی ہو۔

(3) ان کو ذخیرہ کرنے میں شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہو۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں گرمیوں میں لکڑیاں خرید کر گودام میں رکھنا اور پھر سردیوں میں بازاری قیمت بڑھنےمہنگے دام  فروخت کرنا جائز ہو گا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌الاحتكار مكروه وذلك أن يشتري طعاما في مصر ويمتنع من بيعه وذلك يضر بالناس كذا في الحاوي، وإن اشترى في ذلك المصر وحبسه ولا يضر بأهل المصر لا بأس به كذا في التتارخانية."

(فصل فی الإحتكار، ج: 3، ص: 213، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (احتكار قوت البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره."

(فصل في البيع، ج: 6، ص: 398، ط: سعيد)

ملتقی الابحر میں ہے:

"‌الاحتكار في أقوات الآدميين والبهائم ببلد يضر بأهله، وعند أبي يوسف في كل ما يضر احتكاره بالعامة ولو ذهبا أو فضة أو ثوبا. وإذا رفع إلى الحاكم حال المحتكر أمره ببيع ما يفضل عن حاجته، فإن امتنع باع عليه ولا احتكار في غلة ضيعته ولا فيما جلبه من بلد."

(فصل في البيع، ص: 213، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی دار العلوم دیوبند میں ایک سوال کے جواب میں مذکورہ  ہےکہ :

"جواب: درمختار میں ہے کہ احتکار وہ ممنوع ہے جو اہل شہر یا اہل قریہ کو مضرت رساں ہو، اور شامی میں احتکار کی تعریف یہ کی ہے کہ "غلہ کا روکنا بہ انتظارِ گرانی"عبارت اس کی یہ ہے"وشرعا اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلي الغلاء الخ"پس کھانے کی نیت سے خریدنا تو احتکارِ ممنوع نہیں ہے، لیکن یہ نیت رکھنا کہ بوقتِ گرانی زائد غلہ کو فروخت کر دیا جائے گا اچھا نہیں ہے اور شبہ احتکار اس میں ضرور ہے، لہذا اس سے بھی احتیاط کرنی چاہیے اور اس سے احتراز کرنا چاہیے۔ فقط"

(خرید وفروخت کا بیان، ج: 14،ص: 383،384،  ط: دار الاشاعت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144601100383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں