بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی خرید کر اجارہ پر دینےکا حکم


سوال

ایک شخص نے اپنی نانی سے 50,000 روپے لیے گاڑی خریدنے کیلئے لئے، اور اس نے نانی کو کہا کہ میں نے گاڑی  سےٹیکسی چلانی ہے ،آپ کو اس میں سے 2000 روپے دوں گا، آپ پیسے مجھے دے دیں، جبکہ وہ کسی اور کاروبار میں لگانا چاہتی تھیں،  اب اس کو تقریباً 3 سال ہو چکے ہیں، ابھی تک اس عورت نے پیسے نہیں لیے ہیں،  اگر وہ اب تمام منافع تقریباً 72000 واپس لیتی ہے تو کیا جائز ہے ؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص کی نانی نے مذکورہ شخص کو 50000روپے بطور قرض دیے تھے تو نانی کےلیے اصل رقم 50000روپے سے زیادہ لینا جائز نہیں ہوگا۔

اور اگر نانی نے بطور شرکت کے 50000روپے دیے تھے تو پھر اگر مذکورہ شخص کی بھی گاڑی خریدتے وقت رقم  شامل تھی تو دونوں اپنے اپنے سرمایہ کے بقدر نفع میں شریک ہوں گے، یعنی نانی اپنی رقم 50000روپے  کے بقدر اور مذکورہ شخص اپنے سرمایہ کے بقدر نفع میں شریک ہوگا، اور اگر مذکورہ شخص نے گاڑی خریدتے وقت اپنی کوئی رقم شامل نہیں کی تھی تو تمام نفع مذکورہ شخص کی نانی کاہوگا اور مذکورہ شخص کو ان تین سال کی اجرت مثل(یعنی ایک ڈرائیور کو جتنی اجرت ملتی ہے) ملےگی، البتہ نفع میں متعین رقم کی صورت ناجائزہے۔

الدرالمختار مع الردالمحتارمیں ہے:

"(والربح في ‌الشركة ‌الفاسدة بقدر المال، ولا عبرة بشرط الفضل) فلو كل المال لأحدهما فللآخر أجر مثله كما لو دفع دابته لرجل ليؤجرها والأجر بينهما، فالشركة فاسدة والربح للمالك وللآخر أجر مثله.

(قوله: والربح إلخ) حاصله أن ‌الشركة ‌الفاسدة إما بدون مال أو به من الجانبين أو من أحدهما، فحكم الأولى أن الربح فيها للعامل كما علمت، والثانية بقدر المال، ولم يذكر أن لأحدهم أجرا؛ لأنه لا أجر للشريك في العمل بالمشترك كما ذكروه في قفيز الطحان والثالثة لرب المال وللآخر أجر مثله."

(كتاب الشركة،فصل في الشركة الفاسدة،ج:4،ص:326،ط:سعيد)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(وأما) ‌الشركة ‌الفاسدة وهي التي فاتها شرط من شرائط الصحة، فلا تفيد شيئا مما ذكرنا؛ لأن لأحد الشريكين أن يعمله بالشركة الصحيحة، والربح فيها على قدر المالين؛ لأنه لا يجوز أن يكون الاستحقاق فيها بالشرط؛ لأن الشرط لم يصح، فألحق بالعدم، فبقي الاستحقاق بالمال، فيقدر بقدر المال، ولا أجر لأحدهما على صاحبه عندنا."

(كتاب الشركة،ج:6،ص:77،ط:دارالكتب العلميه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406101418

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں