کسی نے گاڑی خریدی یا گھر خریدا اس کے فوراً بعد اگر ظاہری طور پر کاروبار یا کسی کام میں کوئی نقصان ہوجائے ،اب آدمی یہ نظریہ رکھے کہ یہ گاڑی یا یہ گھر مجھے راس نہیں آیا، اس طرح کا نظریہ رکھنا کیسا ہے؟
راس نہ آنے سے مراد اگر یہ ہو کہ یہ جگہ یا یہ گاڑی نحوست والی ہے تو اس بات کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ حدیث شریف میں کسی بھی چیز میں نحوست ہونے کی بالکل صاف اور صریح نفی وارد ہوئی ہے، بعض احادیث میں آیا ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو وہ عورت، گھر اور سواری میں ہوتی۔ لیکن جب ان چیزوں میں نحوست نہیں ہے تو کسی بھی چیز میں نحوست نہیں ہے۔
رزق کی تنگی و فراخی اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتی ہے، کاروبار میں جو تنگی اور نقصان ہوتا ہے اس میں بھی اللہ کی کوئی مصلحت ہوسکتی ہے، نیز بعض کاموں میں نقصان کا ہوجانا اس کے بھی مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، اس طرح کے امور میں ایک مسلمان کو دل برداشتہ ہونے یا ان کی نسبت کسی خاص چیز کی طرف کرکے اس کی نحوست قرار دینے کہ یہ نقصان اس گاڑی یا گھر کی وجہ سے ہوا ہے اس کے بجائے اللہ پر مکمل بھروسہ رکھتے ہوئے ثابت قدمی کے ساتھ اپنے حلال کاروبار میں لگارہنا چاہیے اور اس پراللہ کا شکر بجالانا چاہیے، اس لیے کہ شکر کے نتیجہ میں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ اس نعمت میں اضافہ کردیتا ہےنیزاپنی آمدن میں سے حسبِ استطاعت صدقہ کرتا رہے۔
صحیح بخاری میں ہے:
"عَنْ أَبِيْ هرَیْرَۃَ رَضِيَ اللّٰہُ عَنْه عَن النَّبِيِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ: لَا عَدْوٰی وَلَا طِیَرَۃَ وَ لَا هامَة وَلَا صَفَرَ." (صحیح البخاري، رقم الحدیث:۵۷۶)
ترجمہ:"حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: مرض کا اللہ کے حکم کے بغیر دوسرے کو لگنا، بدشگونی، مخصوص پرندے کی بدشگونی اور صفر کی نحوست؛ یہ ساری باتیں بے بنیاد ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں۔"
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144312100758
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن