بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی ریورس کرتے ہوئے بچہ نیچے آکر مرجائے تو ڈرائیور پر شرعاً کیا چیز لازم ہوگی؟


سوال

ایک بندہ گاڑی نکال رہا تھا، گاڑی پیچھے (ریورس) کرتے ہوئے اس کے بھائی کا بیٹا گاڑی کے ٹائر کے نیچےآگیا اور مرگیا، جس کی عمر ایک سال اور ایک مہینہ تھی، گاڑی چلانے والے کو پتا نہیں تھا کہ بچہ پیچھے بیٹھا ہوا ہے۔

راہ نمائی فرمائیں کہ مذکورہ آدمی پر شرعاً کیا لازم ہوگا؟ کفارہ لازم ہوگا یا کچھ اور بھی ؟ کفارہ میں ساٹھ روزے ہی لازمی ادا کرنے ہوں گے یا ان کے علاوہ بھی کسی چیز سے ادا کیا جاسکتا ہے؟ اور دیت ورثاء کے کہنے پر معاف ہوسکتی ہے یا نہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ قتل چوں کہ  ڈرائیور کی بے احتیاطی سے ہوا ہے، اس لیے مذکورہ صورت میں ڈرائیور پر کفارہ اور اس کے عاقلہ پر دیت  لازم ہو گی، کفارے کی ادائیگی اس کو خود ہی کرنی ہوگی، جس میں دوماہ کے مسلسل روزے رکھنا لازمی ہیں، ساٹھ روزے کے علاوہ کسی اور چیز مثلاً کھانا کھلانے سے کفارے کی ادائیگی نہیں ہوگی۔

اس کے علاوہ قاتل کے عاقلہ پر دیت بھی لازم ہوگی، ’’عاقلہ‘‘ سے مراد ہر وہ جماعت یا قوم ہے جس کے ساتھ قاتل کے تعاون وتناصر کا سلسلہ قائم ہو، خواہ وہ قاتل کا خاندان ہو، یا پھر برادری یا کمیونٹی کے افراد کی جماعت ہو، بہر حال دیت سب ہی پر لازم ہوگی، باقی دیت ٗ سونے اور چاندی دونوں قسم کی دھاتوں سے ادا کی جاسکتی ہے، دیت اگر چاندی سے ادا کی جائےتو اس کی مقدار30,618 گرام چاندی ہے،ا ور اگر دیت سونے سے ادا کی جائے گی، تو اس کی مقدار4,374گرام سونا ہے، نیز اگر مقتول بچے کے تمام ورثاءقاتل کو معاف کردیں، تو دیت ساقط ہوجائے گی۔

تفسير القرطبيمیں ہے:

"الحادية عشرة: قوله تعالى: (‌إلا ‌أن ‌يصدقوا) أصله (أن يتصدقوا) فأدغمت التاء في الصاد. والتصدق الإعطاء، يعني إلا أن يبرئ الأولياء ورثة المقتول [القاتلين] مما أوجب الله لهم من الدية عليهم . . . وأما الكفارة التي هي لله تعالى فلا تسقط بإبرائهم، لأنه أتلف شخصا في عبادة الله سبحانه، فعليه أن يخلص آخر لعبادة ربه وإنما تسقط الدية التي هي حق لهم وتجب الكفارة في مال الجاني ولا تتحمل."

(ص:٣٢٣، ج:٥، سورۃ النساء، الآية: ٩٢، ط: دار الكتب المصرية)

تكملة فتح الملهم  میں ہے:

"ثم لم يذكر الفقهاء حكم السيارة لعدم وجودها في عصرهم  والظاهر أن سائق السيارة ضامن لما أتلفته في الطريق ، سواء أتلفته من القدام ، أو من الخلف  ووجه الفرق بينها وبين الدابة على قول الحنفية أن الدابة متحركة بإرادتها ، فلا تنسب نفحتها إلى راكبها ، بخلاف السيارة ، فإنها لا تتحرك بإرادتها ، فتنسب جميع حركاتها إلى سائقها ، فيضمن جميع ذلك، والله سبحانه وتعالي أعلم."

(ص:٤٦٠، ج:٢/٨، كتاب الحدود، باب جرح العجماء والمعدن والبئر جبار، ط: دار إحياء التراث العربي)

الفتاوي الهنديةمیں ہے:

"والخطأ على نوعين: خطأ في القصد وهو أن يرمي شخصا يظنه صيدا فإذا هو آدمي أو يظنه حربيا فإذا هو مسلم وخطأ في الفعل وهو أن يرمي غرضا فيصيب آدميا كذا في الهداية وموجب ذلك الكفارة والدية على العاقلة، وتحريم الميراث وسواء قتل مسلما، أو ذميا في وجوب الدية والكفارة، ولا مأثم فيه في الوجهين سواء كان خطأ في القصد، أو خطأ في الفعل هكذا في الجوهرة النيرة."

(ص:٣، ج:٦، کتاب الجنایات، الباب الأول، ط: دار الفكر، بيروت)

بدائع الصنائعمیں ہے:

"وأما القتل الخطأ فالخطأ ‌قد ‌يكون ‌في ‌نفس ‌الفعل، وقد يكون في ظن الفاعل أما الأول: فنحو أن يقصد صيدا فيصيب آدميا، وأن يقصد رجلا فيصيب غيره، فإن قصد عضوا من رجل فأصاب عضوا آخر منه فهذا عمد، وليس بخطأ وأما الثاني: فنحو أن يرمي إلى إنسان على ظن أنه حربي أو مرتد فإذا هو مسلم."

(ص:٢٣٤، ج:٧، کتاب الجنایات، القتل وأنواعه، ط: دار الكتب العلمية)

تبيين الحقائقمیں ہے:

"قال رحمه الله (وكفارتهما ما ذكر في النص) أي كفارة القتل خطأ وشبه عمد هو الذي ذكر في القرآن وهو الإعتاق والصوم على الترتيب متتابعا كما ذكر في النص. قال الله تعالى: فتحرير رقبة مؤمنة وشبه العمد خطأ في القتل وإن كان عمدا في حق الضرب فتتناولهما الآية ولا يختلفان فيه لعدم النقل بالاختلاف بخلاف الدية حيث تجب في شبه العمد مغلظة لوجود التوقيف في التغليظ في شبه العمد دون الخطأ والمقادير لا تجب إلا سماعا  قال رحمه الله (ولا يجوز الإطعام والجنين)؛ لأن الإطعام لم يرد به نص والمقادير لا تعرف إلا سماعا."

(ص:١٢٧، ج:٦، کتاب الدیات، ط: دار الکتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم  


فتوی نمبر : 144508101880

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں