میری گاڑی ہے میں دس لاکھ کی فروخت کردوں ایک شخص کو اور پھر اس شخص سے وہی گاڑی ادھار میں دوبارہ خرید لوں کچھ رقم دے دوں اور کچھ رقم ادھار کر لوں دو سال کی مدت کے لئے۔ ان دونوں عقدوں کا حکم کیا ہے؟ عقد اول مکمل ہونے کے بعد عقد ثانی ہوگا اول کے وقت ثانی کی شرط نہیں ہوگی نہ ذکر ہوگی۔ اول کے مکمل ہونے پر ثانی عقد ہوگا؟ کیا ایسا معاملہ کرنا جائز ہے ؟ اگر نہیں تو جائز صورت کیا ہوگی؟
صورتِ مسئولہ میں اگر سائل نے اپنی گاڑی کسی نقد پر دس لاکھ کی فروخت کر کے قیمت وصول کرلی اور گاڑی کا قبضہ بھی خریدنے والے کو دے دیا تو یہ بیع درست ہوئی، اس کے بعد کسی اور مجلس میں اگر دوبارہ سائل اور خریدنے والے نے باہم رضامندی سے ادھار پر معاملہ کر لیا اور پہلے سے اس کی شرط نہیں لگائی گئی تھی تو یہ معاملہ جائز ہوگا،لیکن پہلے سے یہ طے کرنا کہ میں آپ کو نقد فروخت کرکے ادھار خریدوں گا شرعا ناجائز اور سودی معاملہ ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) فسد (شراء ما باع بنفسه أو بوكيله) من الذي اشتراه ولو حكما كوارثه (بالأقل) من قدر الثمن الأول (قبل نقد) كل (الثمن) الأول. صورته: باع شيئاً بعشرة ولم يقبض الثمن ثم شراه بخمسة لم يجز وإن رخص السعر للربا خلافاً للشافعي (وشراء من لاتجوز شهادته له) كابنه وأبيه (كشرائه بنفسه) فلا يجوز أيضاً خلافاً لهما في غير عبده ومكاتبه (ولابد) لعدم الجواز (من اتحاد جنس الثمن) وكون المبيع بحاله (فإن اختلف) جنس الثمن أو تعيب المبيع (جاز مطلقاً)كما لو شراه بأزيد أو بعد النقد.
(قوله: وفسد شراء ما باع إلخ) أي لو باع شيئاً وقبضه المشتري ولم يقبض البائع الثمن فاشتراه بأقل من الثمن الأول لايجوز زيلعي: أي سواء كان الثمن الأول حالاً أو مؤجلاً هداية، وقيد بقوله: وقبضه؛ لأن بيع المنقول قبل قبضه لايجوز ولو من بائعه كما سيأتي في بابه، والمقصود بيان الفساد بالشراء بالأقل من الثمن الأول. قال في البحر: وشمل شراء الكل أو البعض.
(باب البيع الفاسد، ج: 5، ص: 73، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602102827
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن