بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اون منی پہ گاڑی لینے کا حکم


سوال

 گاڑی اون پر لینا جائز ہے؟ یعنی گاڑی  جلدی لینے کے لیے گاڑی  کی قیمت سے اوپر پیسے دینا۔

جواب

گاڑی اون پر لینے میں  چند صورتیں ہو سکتی ہیں:

1)  گاڑی لینے والے نے  گاڑی کمپنی سے بک کرالی ہو،گاڑی کی قیمت بھی طے ہوچکی  ہو، اور کمپنی نے گاڑی کی ڈیلیوری  بکنگ کے کچھ مہینے بعد دینی ہو، اب گاہگ کمپنی سے کہے کہ میں مدت مقررہ سے پہلے گاڑی حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور کمپنی گاہگ سے اضافی رقم (اون  منی)لے کر اسے گاڑی جلدی دے دے، تو یہ صورت ناجائز ہے، اور کمپنی کو یہ اضافی رقم  لینے کا شرعًا حق نہیں، ہاں اگر  اضافی رقم (اون منی)  وصول کیے بغیر  کمپنی گاڑی مقررہ مدت سے پہلے حوالے کردے، تو یہ جائز ہے۔

2)  اگر بکنگ کے وقت ہی  گاہگ  کو بتا دیا جائے کہ تاخیر سے گاڑی ملنے کی صورت میں اتنی قیمت ہوگی، اور اگر گاڑی جلدی چاہیے تو اتنی ہوگی (اون منی کے اضافے کے ساتھ) اور پھر گاہگ بھی کسی ایک صورت پر رضامند ہوجائے اور اس پر معاملہ طے پاجائے تو یہ درست ہے،  لیکن جو بھی صورت طے کرلی جائے، اسی کے مطابق قیمت طے ہوجائے گی، اس میں کمی بیشی درست نہیں ہوگی، ا س صورت میں گاڑی جلدی دینے  کے لیے  (اون منی وصول کرتے ہوئے) مہنگی قیمت لینا جائز ہوگا(جب کہ ابتداءً عقد کرتے ہوئےاس ہی کو طے کر لیا گیا ہو)۔

البتہ اگر یہ طے کر لیا گیا کہ گاڑی اون منی لیے  بغیر گاڑی تاخیر سے دی جائے گی، تو پھر اس صورت میں یہ جائز نہیں ہوگا کہ بعد میں گاڑی جلد دینے  کے لیے اضافی پیسے(اون منی کی مد میں) دیے یا لیے جائیں، بلکہ اس کے بعد اگر گاہگ گاڑی جلد وصول کرنا چاہتا ہو، تو  کمپنی اس کو اسی قیمت پہ (جو پہلے سے طے ہوچکی ہے) دے دے، یا پھر اس معاملہ کو ختم کر کے از سرِ نو نیا معاملہ کیا جائے۔

اسی طرح اگر عقد کے شروع میں دونوں صورتوں (تاخیروالی بلا زیادتی کے اور جلدی والی(اون منی کی) زیادتی  کے ساتھ) میں سے کسی ایک صورت کو متعین نہیں کیا گیا تو بھی یہ معاملہ جائز نہ ہوگا۔

اگر سائل کو مذکورہ بالا صورتوں  کے علاوہ کسی اور صورت کا حکم مطلوب ہے، تو اس کی صراحت کے ساتھ دوبارہ سوال ارسال کرسکتے ہیں۔

فتح  القدیر میں ہے:

البيع لغة: مبادلة المال بالمال، وكذا في الشرع، لكن زيد فيه قيد التراضي اهـ.

(كتاب البيوع، جلد 6/ صفحہ 247/ ط: دار الفكر- بیروت) 

تحفة الأحوذي شرح جامع الترمذی میں ہے:

"(قوله: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة) أي صفقة واحدة و عقد واحد ويأتي تفسير هذا عن المصنف.

(قوله: و قد فسر بعض أهل العلم قالوا: بيعتين في بيعة أن يقول: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين و لايفارقه على أحد البيعين) قال في شرح السنة بعد ذكر هذا التفسير: هو فاسد عند أكثر أهل العلم؛ لأنه لايدرى أيهما جعل الثمن، انتهى. وقال في النيل: و العلة في تحريم بيعتين في بيعة عدم استقرار الثمن في صورة بيع الشيء الواحد بثمنين انتهى.  (فإذا فارقه على أحدهما فلا بأس إذا كانت العقدة على واحد منهما) بأن قال البائع: أبيعك هذا الثوب بنقد بعشرة وبنسيئة بعشرين، فقال المشتري: اشتريته بنقد بعشرة ثم نقد عشرة دراهم فقد صح هذا البيع وكذلك إذا قال المشتري اشتريته بنسيئة بعشرين وفارق البائع على هذا صح البيع لأنه لم يفارقه على إيهام وعدم استقرار الثمن بل فارقه على واحد معين منهما وهذا التفسير قد رواه الإمام أحمد في روايته عن سماك ففي المنتقى عن سماك عن عبد الرحمن بن عبد الله بن مسعود عن أبيه قال: نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن صفقتين في صفقة، قال سماك: هو الرجل يبيع البيع فيقول هو بنسأ بكذا وهو بنقد بكذا وكذا قال الشوكاني في النيل، قوله: من باع بيعتين في بيعة فسره سماك بما رواه المصنف يعني صاحب المنتقى عن أحمد عنه وقد وافقه على مثل ذلك الشافعي فقال بأن يقول: بعتك بألف نقدًا أو ألفين إلى سنة فخذ أيهما شئت أنت وشئت أنا ونقل بن الرفعة عن القاضي أن المسألة مفروضة على أنه قبل على الإبهام أما لو قال قبلت بألف نقد أو بألفين بالنسيئة صح ذلك انتهى.

واعلم أنه قد فسر البيعتان في بيعة بتفسير آخر وهو أن يسلفه دينارًا في قفيز حنطة إلى شهر فلما حلّ الأجل و طالبه بالحنطة قال: بعني القفيز الذي لك علي إلى شهرين بقفيزين فصار ذلك بيعتين في بيعة؛ لأنّ البيع الثاني قد دخل على الأول فيرد إليه أو كسهما و هو الأول كذا في شرح السنن لابن رسلان فقد فسر حديث أبي هريرة المذكور بلفظ نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيعتين في بيعة بثلاثة تفاسير فاحفظها."

(باب ما جاء في النهي عن بيعتين في بيعة، ج:4، ص:357، ط:دارالكتب العلمية)

امام ابو جعفر طحاوی ؒ فرماتے ہیں:

«حَطِيطَةُ الْبَعْضِ مِنَ الدَّيْنِ الْمُؤَجَّلِ، لِيَكُونَ سَبَبًا لِتَعْجِيلِ بَقِيَّتِهِ، فَكَرِهَ ذَلِكَ مَنْ كَرِهَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَأَطْلَقَهُ مَنْ سِوَاهُ مِمَّنْ وَصَفْنَا، وَكَانَ الْأَصْلُ فِي ذَلِكَ أَنَّ الْأَمْرَ لَوْ جَرَى فِي ذَلِكَ بَيْنَ مَنْ هُوَ لَهُ، وَبَيْنَ مَنْ هُوَ عَلَيْهِ بِالْوَضْعِ وَالتَّعْجِيلِ عَلَى أَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَشْرُوطٌ فِي صَاحِبِهِ، كَانَ وَاضِحًا أَنَّ ذَلِكَ لَا يَجُوزُ، وَأَنَّهُ كَالرِّبَا الَّذِي جَاءَ الْقُرْآنُ بِتَحْرِيمِهِ، وَبِوَعِيدِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ، وَهُوَ أَنَّ الْجَاهِلِيَّةَ كَانُوا يَدْفَعُونَ إِلَى مَنْ لَهُمْ عَلَيْهِمُ الدَّيْنُ الْعَاجِلُ مَا يَدْفَعُونَهُ إِلَيْهِمْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ حَتَّى يُؤَخِّرُوا عَنْهُمْ ذَلِكَ الدَّيْنَ الْعَاجِلَ إِلَى أَجَلٍ يَذْكُرُونَهُ فِي ذَلِكَ التَّأْخِيرِ، فَيَكُونُونَ بِذَلِكَ مُشْتَرِينَ أَجَلًا بِمَالٍ، فَحَرَّمَ اللهُ ذَلِكَ، وَأَوْعَدَ عَلَيْهِ الْوَعِيدَ الَّذِي جَاءَ بِهِ الْقُرْآنُ، فَكَانَ مِثْلُ ذَلِكَ وَضْعُ بَعْضِ الدَّيْنِ الْمُؤَجَّلِ لِتَعْجِيلِ بَقِيَّتِهِ فِي أَنْ لَا يَجُوزَ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ ابْتِيَاعُ التَّعْجِيلِ بِمَا يُتَعَجَّلُ مِنْهُ بِإِسْقَاطِ بَقِيَّةِ الدَّيْنِ الَّذِي سَقَطَ مِنْهُ، فَهَذَا وَاضِحٌ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ، وَمِمَّنْ كَانَ يَذْهَبُ إِلَى ذَلِكَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَبُو حَنِيفَةَ، وَمَالِكٌ، وَأَبُو يُوسُفَ، وَمُحَمَّدٌ»

(«شرح مشكل الآثار» (11/ 63)، ‌‌بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِ لِبَنِي النَّضِيرِ لَمَّا أَمَرَ بِإِجْلَائِهِمْ مِنَ الْمَدِينَةِ عِنْدَ قَوْلِهِمْ لَهُ: إِنَّ لَنَا دُيُونًا لَمْ تَحِلَّ: " ضَعُوا وَتَعَجَّلُوا "، الناشر: مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144201200955

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں