بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی کرایہ لی اور کرایہ دار سے ایکسیڈنٹ میں گاڑی تباہ ہوگئی تو ضمان کا حکم


سوال

میرے چچا کے بیٹے انس نے اپنے دوست سے کرایہ پر گاڑی لی تھی اسی گاڑی میں وہ اپنے گھر والوں کو سفر پر لے گیا ،راستہ میں ایکسیڈنٹ ہوا ،جس میں میرے چچا کے بیٹے اپنی والدہ ،بھائی ،پھوپھو ،پھوپھا اور ایک کزن سمیت جان بحق ہوگئے اور گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی،  اب گاڑی کا مالک ان کے والد سے تاوان مانگ رہے ہیں ،کیا شرعاً ان کے والد کے ذمہ لازم ہے کہ وہ مالک کو تاوان ادا کرے ؟انس مرحوم کا کوئی ترکہ نہیں ہے وہ اپنے والد کے زیر کفالت تھا کالج میں پڑھتا تھا؟

جواب

واضح رہے کہ رینٹ پر لیا ہوا سامان استعمال کنندہ کے پاس بطور امانت ہوتا ہے ،بغیر قصد و کوتاہی کے اگر وہ سامان گم ہو جائے یا ٹوٹ جائے تو استعمال کنندہ سے اس کی قیمت وصول کرنا جائز نہیں،البتہ غفلت و کوتاہی کی وجہ سے ہونے والے نقصان کا تاوان نقصان کرنے والے سے  وصول کرنا جائز ہوتا ہے۔اگر مالک(موجر)اور رینٹ پر لینے والے(مستاجر) کے درمیان معاہدہ ہو کہ مستاجر بہر صورت نقصان کا ذمہ دار ہوگا تویہ ایک وعدہ ہےجس کی پاس داری  اخلاقًا  لازم ہے،  بلا وجہ اس کےخلاف کر نا اللہ تعالی کو نا پسند اور اخلاقی جرم ہےلیکن قضاءً  اس کو پورا کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کرایہ پر گاڑی لینے والے کی جانب سےبغیر کسی غفلت اور کوتاہی کے حادثہ ہوا تو ایسی صورت میں اس کا تاوان کرایہ پر لینے والے پر لازم نہیں اور اگر اس کی غلطی اور کوتاہی سے حادثہ ہوا ہو تو پھر اس کے ترکہ سے تاوان ادا کیا جائے گا، اس  کے والد  سے  تاوان وصول نہیں کیا جاسکتا۔

الدر المختار میں ہے:

"(ولا يجمع بينهما) أي... ولا ضمان وقطع أو أجر..... وفي الرد: قوله( أو أجر) أي ولا ضمان وأجر؛ كما لو استأجر دابة ليركبها ففعل وجب الأجر ولا ضمان وإن عطبت."

(الدر المختار مع رد المحتار،259/1، سعيد)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"(المادة 600) المأجور أمانة في يد المستأجر إن كان عقد الإجارة صحيحا أو لم يكن.( المادة 601) لا يلزم الضمان إذا تلف المأجور في يد المستأجر ما لم يكن بتقصيره أو تعديه أو مخالفته لمأذونيته.( المادة 602) يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور أو طرأ على قيمته نقصان بتعديه. مثلا لو ضرب المستأجر دابة الكراء فماتت منه أو ساقها بعنف وشدة هلكت لزمه ضمان قيمتها.... (المادة 607) لو تلف المستأجر فيه بتعدي الأجير أو تقصيره يضمن."

(مجلة الاحكام العدلية، ‌‌الكتاب الثاني: في الإجارات، ‌‌الباب الثامن في بيان الضمانات،  ‌‌الفصل الثاني: في ضمان المستأجر،ص: 112نور محمد كراتشي)

وفیہ ایضا:

"(مادة 916) أتلف صبي مال غيره يلزم الضمان من ماله وإن لم يكن له مال ينتظر إلى حال يسر ولا يضمن وليه.

(مجلة الاحكام العدلية، ‌‌الكتاب الثامن في الغصب والإتلاف،‌‌الباب الثاني: في بيان الإتلاف، ‌‌الفصل الأول في الإتلاف مباشرة، ص: 177، نور محمد۔" كراتشي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144306100133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں