بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی خریدنے کے لیے بینک سے سودی قرضہ لینے کا حکم


سوال

 بینک سے کار لون لینے کی سخت ضرورت ہے، اس لیے کہ غیر سودی قرض کوئی نہیں دے رہا ہے  اور پرانی گاڑی لیکر نقصان برداشت کر چکے ہیں،تو کیا بوقت مجبوری بینک سے لون لے سکتے ہیں ؟ 

جواب

واضح رہے کہ سود لینا اور سود دینا دونوں قرآن و حدیث کی قطعی نصوص سے حرام ہیں، حدیثِ مبارک میں  سودی لین دین کرنے والوں پر لعنت کی  گئی ہے، اور بینک  سے   ملنے والا قرض سراسر سود پر مشتمل ہوتاہے، اور بینک سے قرض لینا سودی معاملہ ہے،  اور سودی قرض لینا جائز نہیں  ۔

 باقی  ضرورت کے لیے  کسی رشتہ دار یا شناسا شخص سے قرض لیا جاسکتا ہے، اور اگر کوئی بندوبست نہ ہو تو اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے قناعت کرنا چاہیے، کیوں کہ قرض لینے کے بعد اس قرض کی ادائیگی کا بھی تو انتظام کرنا ہوگا، اس وقت جیسے محنت کرکے حلال رقم سے ادائیگی کا انتظام کیا جائے گا، ابھی سے کوشش کرلی جائے تاکہ سودی قرض لینے کی ہی نوبت نہ آئے، اور اگر بعد میں ادائیگی میں حلال کا اہتمام نہ ہو تو یہ گناہ در گناہ ہوجائے گا، اور سودی قرضہ اتارنے کے لیے  پھر سودی قرضے لینے کا سلسلہ   نہ کرنا   پڑجائے، اور آدمی  اگر حرام سے بچنے  کے لیے ہمت بلند رکھے اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھے تو اللہ کی طرف سے مدد ہوتی ہے، اور اللہ تعالی ایسی جگہ سے بندوبست کرتے ہیں جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا ، وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا } [الطلاق: 2، 3]"

حدیث مبارک میں ہے:

"عن ‌جابر قال:لعن ‌رسول ‌الله ‌صلى ‌الله ‌عليه ‌وسلم ‌آكل ‌الربا ومؤكله، وكاتبه وشاهديه، وقال: هم سواء."

(الصحیح لمسلم، كتاب البيوع، باب لعن آكل۔۔۔، ج:5، ص:50، رقم:1598، ط:دار إحياء التراث)

تفسیرِ مظہری میں ہے:

"‌الربوا ‌سبعون حوبا أيسرها ان ينكح الرجل امه- رواه ابن ماجة والبيهقي."

(سورة بقرة، ج:1، ص:395، ط:مكتبة الرشيدية۔باكستان)

اعلاء السنن میں ہے:

"قال ابن المنذر: أجمعوا على أن المسلف إذا شرط على المستسلف زیادة أو ھدیة  فأسلف على ذلك إن أخذ الزیادة علی ذلك ربا."

( کتاب الحواله باب کل قرض جر  منفعة، ج:14، ص:513، ط:إدارۃ القرآن)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100867

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں