بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی کرایہ پر لے کر آگے زائد کرایہ پر دینے کی جائز صورت


سوال

 ایک شخص نے کاروبار کا ارادہ کیا ہے، جس کاروبار کی دو صورتیں ہیں:

1۔ لوگوں سے ان کی گاڑیاں کرایہ  پر لے گا، لیکن خود استعمال نہیں کرے گا، بلکہ آگے کسی  دوسرے آدمی کو وہ گاڑی  کرایہ پر دے گا، اس طور پر کہ خود جتنا کرایہ  مالک کو دے گا، دوسرے آدمی سے  اس سے زیادہ کرایہ وصول کرے گا، تاہم  یہ بھی ممکن ہے کہ کبھی کم کرایہ وصول کرے گا۔

2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ یہ شخص( کرایہ میں لینے والا) اس گاڑی کے لیے ایک  ڈرائیور رکھے گا ،پھر اس گاڑی سے جتنی آمدن ہوگی،  اس سے مالک کو کرایہ بھی ادا کرے گا، اور ڈرائیور کو تنخواہ بھی دے گا، اس کے بعد جتنی کمائی باقی  رہ جائے گی، وہ کرایہ پر لینے والی شخص کی ہوگی۔ مثلا:گاڑی چلاکر  ایک لاکھ کی آمدن ہوئی، اس میں سے 30 ہزار ڈرائیور کی تنخواہ، 50 ہزار مالک کا کرایہ، باقی20ہزار کرایہ پر لینے والے شخص کا منافع ہوگا۔

کیا اس طرح معاملہ کرنا جائز ہے؟ ان میں سے جواز کی صورت بتا کر مشکور فرمائیں۔

نوٹ: اس گاڑی پر کسی صورت میں بھی اگر خرچہ نکل آیا، تو 10 ہزار سے کم خرچہ کرایہ لینے والے شخص پر ہوگا، اور 10 ہزار سے زیادہ خرچہ مالک پر ہوگا اور یہ شخص اس کے کاروبار کے لیے باقاعدہ دفتر کھولنے کا انتظام کرتا ہے، جس میں باقاعدہ ملازمین کام کریں گے، ان کا خرچہ بھی کرایہ پر لینے والا شخص ادا کرے گا۔ 

جواب

1۔صورت  مسئولہ میں گاڑی کرایہ پر لینے کے بعد اگر اس میں تیل یا پیٹرول وغیرہ بھر کے نہیں دیا تو  آ گے زائد کرایہ پر دینا اور زیادہ کرایہ وصول کرنا شرعاً درست نہیں ہے، ہاں اگر پیٹرول بھر کے دیا یا تیل یا گیس پھر زائد کرایہ پر دینا جائز ہوگا، اور زائد رقم وصول کرنا جائز ہوگا۔ 

2۔دوسری صورت یعنی سائل گاڑی کرایہ پر لے، پھر اس گاڑی کے لیے ڈرایئور  رکھ  کر کمائی کراۓ تو طے شدہ رقم گاڑی کے مالک اور ڈرائیور کو ادا کرکے بقیہ رقم  منافع  کے طور پر اپنے پاس رکھ لے،  تو یہ  شرعا ًجائز ہے۔

کتاب الاصل میں ہے:

"شعبة بن الحجاج عن حماد عن إبراهيم في رجل ‌استأجر ‌دارا ‌فآجرها ‌بأكثر ‌من ‌أجرها، أنه قال: ذلك ربا.

وقال أبو حنيفة: إذا استأجر الرجل عبدا يخدمه فأراد أن يؤاجره من غيره ليخدمه كان ذلك له، ولا يكون مخالفا، وإن كان استفضل في أجره شيئا لم يطب له الفضل إلا أن يعينه ببعض متاعه، أو يعينه المستأجر الأول في عمله بشيء قليل، أو بشيء بنفسه أو ببعض أجرائه، فإن فعل ذلك طاب له الفضل."

(كتاب الحيل،‌‌باب الوجه في الخدمة وفضول أجورهم والثقة في ذلك،415/9،ط:دار ابن حزم، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا ‌آجرها ‌بخلاف ‌الجنس أو أصلح فيها شيئا .....

قال ابن عابدين:(قوله بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد"

(كتاب الإجارة،‌‌باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها،29/6،ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله فله أن يسكنها غيره) أي ولو شرط أن يسكنها وحده منفردا سرى الدين وهذا في الدور والحوانيت ط ومثله عبد الخدمة فله أن يؤجره لغيره، بخلاف الدابة والثوب، وكذا كل ما يختلف باختلاف المستعمل كما في المنح."

كتاب الإجارة،باب ما يجوز من الإجارة وما يكون خلافا فيها،28/6، ط: سعید)

فقط والله اعلم  


فتوی نمبر : 144507101422

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں