بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی بکنگ کرواکراون پر بیچنا


سوال

کار کمپنی گاڑی کی قیمت وصول کرکے ایک مقررہ مدت تک ڈلیوری کرتی ہے،وہ گاڑی آپ بغیر رجسڑیشن کسی بھی شخص کو اس کی قیمت سے زیادہ رقم دے کرفوری طور پر مالک بن جاتے  ہیں ، اس میں کمپنی کوئی  زائد رقم وصول کرتی ہے ۔ یہ سیکنڈ پارٹی سیل پرچیز ہوتی  ہے۔

جواب

آپ کا سوال  غالبا  گاڑی اون پر  لینے سے متعلق ہے ،کمپنی سے گاڑی اون پر لینے کی   ہماری معلومات کے مطابق    چند صورتیں ہو سکتی ہیں:

1)  گاڑی لینے والے نے  گاڑی کمپنی سے بک کرالی ہو،گاڑی کی قیمت بھی طے ہوچکی  ہو، اور کمپنی نے گاڑی کی ڈیلیوری  بکنگ کے کچھ مہینے بعد دینی ہو، اب گاہگ کمپنی سے کہے کہ میں مدت مقررہ سے پہلے گاڑی حاصل کرنا چاہتا ہوں، اور کمپنی گاہگ سے اضافی رقم (اون  منی)لے کر اسے گاڑی جلدی دے دے، تو یہ صورت ناجائز ہے، اور کمپنی کو یہ اضافی رقم  لینے کا شرعًا حق نہیں، ہاں اگر  اضافی رقم (اون منی)  وصول کیے بغیر  کمپنی گاڑی مقررہ مدت سے پہلے حوالے کردے، تو یہ جائز ہے۔

2)  اگر بکنگ کے وقت ہی  کمپنی گاہگ  کو بتادے کہ تاخیر سے گاڑی ملنے کی صورت میں اتنی قیمت ہوگی، اور اگر گاڑی جلدی چاہیے تو اتنی ہوگی، اور   پھر گاہگ  جلدی لینے پر رضامند ہوجائے اور اس پر معاملہ طے پاجائے تو یہ درست ہے،  اور اس صورت میں کمپنی نے جو زائد قیمت ابتدا میں ہی طے کی ہے وہ کمپنی کے لیے لینا جائز ہوگا، خواہ اسے اون منی کا نام دیا جائے۔   البتہ اگر یہ طے کر لیا گیا کہ گاڑی اون منی لیے  بغیر گاڑی تاخیر سے دی جائے گی، تو  پھر  (جیساکہ نمبر 1 کے تحت لکھا گیا ہے کہ) اس صورت میں  یہ جائز نہیں ہوگا کہ بعد میں گاڑی جلد دینے  کے لیے اضافی پیسے (اون منی کی مد میں)   دیے یا لیے جائیں۔

3)  اگر عقد کے شروع میں دونوں صورتوں (تاخیروالی بلا زیادتی کے اور جلدی والی "اون منی"  کی  زیادتی  کے ساتھ)  میں سے کسی ایک صورت کو متعین نہیں کیا گیا تو بھی یہ معاملہ جائز نہ ہوگا۔

4)  گاڑی تو مقررہ وقت پر  یا پہلے بکنگ کروانے والے کو مل گئی ،لیکن گاڑی کی رجسٹریشن سے پہلے کوئی اور شخص اس بکنگ کروانے والے سے  اون (اوپر قیمت) پرخریدنا چاہتا ہےتو بکنگ کروانے والا  اپنے  نام پرکروانے کے بجائےبراہِ راست اسی خریدار  کے نام پر رجسٹریشن کرواتا ہے، اب اس صورت میں کمپنی اون میں سے حصہ دینے کی شرط پر اس خریدار کے نام پررجسٹریشن کرتی ہے، ورنہ نہیں کرتی، بلکہ بکنگ کروانے والے کے نام پر کرتی ہے،تو  اس صورت کا حکم یہ ہے کہ شرعًا کمپنی کا اس چیز کے  لیے خریدار سے  اون میں سے منافع  کا مطالبہ کرنا شرعًا درست نہیں ہے، البتہ بکنگ کروانے والے کا گاڑی قبضہ میں آجانے  کے بعد  اضافی قیمت پر  بیچنا  شرعًا  درست  ہے۔

امام ابو جعفر طحاوی ؒ فرماتے ہیں:

«حَطِيطَةُ الْبَعْضِ مِنَ الدَّيْنِ الْمُؤَجَّلِ، لِيَكُونَ سَبَبًا لِتَعْجِيلِ بَقِيَّتِهِ، فَكَرِهَ ذَلِكَ مَنْ كَرِهَهُ مِمَّنْ ذَكَرْنَا، وَأَطْلَقَهُ مَنْ سِوَاهُ مِمَّنْ وَصَفْنَا، وَكَانَ الْأَصْلُ فِي ذَلِكَ أَنَّ الْأَمْرَ لَوْ جَرَى فِي ذَلِكَ بَيْنَ مَنْ هُوَ لَهُ، وَبَيْنَ مَنْ هُوَ عَلَيْهِ بِالْوَضْعِ وَالتَّعْجِيلِ عَلَى أَنَّ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مَشْرُوطٌ فِي صَاحِبِهِ، كَانَ وَاضِحًا أَنَّ ذَلِكَ لَا يَجُوزُ، وَأَنَّهُ كَالرِّبَا الَّذِي جَاءَ الْقُرْآنُ بِتَحْرِيمِهِ، وَبِوَعِيدِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ، وَهُوَ أَنَّ الْجَاهِلِيَّةَ كَانُوا يَدْفَعُونَ إِلَى مَنْ لَهُمْ عَلَيْهِمُ الدَّيْنُ الْعَاجِلُ مَا يَدْفَعُونَهُ إِلَيْهِمْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ حَتَّى يُؤَخِّرُوا عَنْهُمْ ذَلِكَ الدَّيْنَ الْعَاجِلَ إِلَى أَجَلٍ يَذْكُرُونَهُ فِي ذَلِكَ التَّأْخِيرِ، فَيَكُونُونَ بِذَلِكَ مُشْتَرِينَ أَجَلًا بِمَالٍ، فَحَرَّمَ اللهُ ذَلِكَ، وَأَوْعَدَ عَلَيْهِ الْوَعِيدَ الَّذِي جَاءَ بِهِ الْقُرْآنُ، فَكَانَ مِثْلُ ذَلِكَ وَضْعُ بَعْضِ الدَّيْنِ الْمُؤَجَّلِ لِتَعْجِيلِ بَقِيَّتِهِ فِي أَنْ لَا يَجُوزَ ذَلِكَ؛ لِأَنَّهُ ابْتِيَاعُ التَّعْجِيلِ بِمَا يُتَعَجَّلُ مِنْهُ بِإِسْقَاطِ بَقِيَّةِ الدَّيْنِ الَّذِي سَقَطَ مِنْهُ، فَهَذَا وَاضِحٌ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ، وَمِمَّنْ كَانَ يَذْهَبُ إِلَى ذَلِكَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَبُو حَنِيفَةَ، وَمَالِكٌ، وَأَبُو يُوسُفَ، وَمُحَمَّدٌ»

(«شرح مشكل الآثار» (11/ 63)، ‌‌بَابُ بَيَانِ مُشْكِلِ مَا رُوِيَ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قَوْلِهِ لِبَنِي النَّضِيرِ لَمَّا أَمَرَ بِإِجْلَائِهِمْ مِنَ الْمَدِينَةِ عِنْدَ قَوْلِهِمْ لَهُ: إِنَّ لَنَا دُيُونًا لَمْ تَحِلَّ: " ضَعُوا وَتَعَجَّلُوا "، الناشر: مؤسسة الرسالة)

فقط واللہ اعلم

اگر سائل کو مذکورہ بالا صورتوں  کے علاوہ کسی اور صورت کا حکم مطلوب ہے، تو اس کی صراحت کے ساتھ دوبارہ سوال ارسال کرسکتے ہیں۔


فتوی نمبر : 144211201236

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں