بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاڑی میں ملے ہوئے لیپ ٹاپ کا حکم


سوال

 میں ایک لیپ ٹاپ استعمال  کررہا ہوں وہ لیپ ٹاپ مجھے کسی نے گفٹ کی صورت میں دیا تھا ،لیکن مجھے پتہ ہے كے وہ لیپ ٹاپ کسی کی کھوئی ہوئی چیز ہے، لیکن مجھے جس نے گفٹ میں دیا ہے، اسے بھی کسی نے دیا تھا، اور جس شخص نے سب سے پہلے دیا تھا اسے کسی غیر  اسلامی ملک میں ٹیکسی چلاتے ہوئے اپنی ٹیکسی میں وہ لیپ ٹاپ ملا جو کے کسی پیسنجر کا تھا ،اب انہوں نے وہ لیپ ٹاپ اپنے جاننے والے کو دیا ہے، اوران کی جاننے والے نے  مجھے گفٹ کیا ہے، اب میں یہ سوچ رہا ہوں كے جتنے کا لیپ ٹاپ ہے اتنی قیمت مالک کی طرف سے صدقہ کر دی جائے اور لیپ ٹاپ استعمال کیا جائے ورنہ لیپ ٹاپ ایسا ہی خراب ہوجائے گا۔

جواب

 صورتِ  مسئولہ میں جو لیپ ٹاپ ملا ہے جوٹیکسی میں کسی سے رہ گیا تھا، تو جس کو ملا تھا اس کے ذمہ اس کے مالک کو تلاش کرکے اس تک  پہنچانے کی کوشش کرنا  ضروری تھا، مالک تک پہنچانے کے لیے اس کی حتی الوسع تشہیر کرنا لازم تھا، یہاں تک کہ غالب گمان ہوجائے کہ اب اس کے مالک تک نہیں پہنچ سکتا، اگر تشہیر کے باوجود مالک کا پتا نہ لگے تو اس کو محفوظ  رکھے،  تاکہ مالک کے آجانے کی صورت میں مشکل پیش نہ آئے، اور   اگر (حتی الوسع تشہیر کے ذرائع استعمال کرنے کے باوجود اگر مالک ملنے سے مایوسی ہوجائے )تو یہ صورت بھی جائز ہے کہ مالک ہی کی طرف سے کسی  فقیر کو صدقہ کردے، البتہ صدقہ کرنے  تواسے اپنی  لیپ ٹاپ کے مطالبے کا  اختیار حاصل ہوگا۔ 

جہاں تک سائل کی بات ہے اس کو یہ لیپ ٹاپ لینا جائز نہیں ہے،کیونکہ اس کو معلوم ہے کہ یہ غیر کے ملکیت ہے،شرعی ضابطے کا اس میں خیال نہیں رکھا گیا ہے،اور کسی غیر کی ملکیت اس کے اجازت اور خوشنودی کے بغیر استعمال کرنا ناجائز اور حرام ہے،لہذا سائل جلد از جلد اس لیپ ٹاپ کو  جس نے گفٹ کیا ہے،اسے واپس کرکے اپنا ذمہ فارغ کرے،اور جتنا استعمال کیا ہے اس پر اللہ تعالی سے معافی مانگے اگر اصل مالک مل گیا اس  کو واپس کرتے ہوئےبلا اجازت استعمال کی بھی معذرت کرنی چاہیے۔

السنن الكبرى میں ہے:

"عن أبي حرة الرقاشي، عن عمه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطيب نفس منه."

(باب من غصب لوحا فأدخله في سفينۃ أو بنى عليه جدار، ج:6، ص:166،ط:دار الكتب العلمية) 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے :

" وقال الإمام الأجل أبو بكر محمد بن أبي سهل السرخسي: " ليس في هذا تقدير لازم بل يفوض إلى رأي الملتقط يعرف إلى أن يغلب على رأيه أن صاحبه لا يطلبه بعد ذلك فبعد ذلك إن جاء صاحبها دفعها إليه وإن لم يجئ فهو بالخيار إن شاء أمسكها حتى يجيئ صاحبها وإن شاء تصدق بها وإن تصدق ثم جاء صاحبها كان صاحبها بالخيار إن شاء أجاز الصدقة ويكون الثواب له وإن لم يجز الصدقة، فإن كانت اللقطة في يد الفقير يأخذها من الفقير وإن لم تكن قائمة كان له الخيار إن شاء ضمن الفقير، وإن شاء ضمن الملتقط، وأيهما ضمن لايرجع على صاحبه بشيء وينبغي للملتقط أن يشهد عند رفع اللقطة أنه يرفعها لصاحبها فإن أشهد كانت اللقطة أمانة في يده، وإن لم يشهد كان عاصيا في قول أبي حنيفة، ومحمد على قول أبي يوسف -رحمهم الله-: هي أمانة على كل حال إذا لم يكن من قصده الحفظ لنفسه، و لايضمن الملتقط إلا بالتعدي عليها أو بالمنع عند الطلب وهنا إذا أمكنه أن يشهد وإن لم يجد أحدا يشهده عند الرفع أو خاف أنه لو أشهد عند الرفع يأخذ منه الظالم فترك الإشهاد لايكون ضامنًا (رواه أبو داود وذكر حديث المقدام) بكسر الميم (ابن معديكرب) بلا انصراف (ألا لا يحل) أي: لكم الحمار الأهلي ولا كل ذي ناب من السباع ولا لقطة معاهد إلا أن يستغني عنها صاحبها (في باب الاعتصام) أي: في ضمن حديث طويل أثره مناسب لذلك الباب، والله تعالى أعلم بالصواب."

 (کتاب اللقطة، ج:5، ص:2020، ط:دار الفكر)

ملتقى الأبحر میں ہے :

"و للملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو فقيرا وإن غنيا تصدق بها ولو على أبويه أو ولده أو زوجته لو فقراء وإن كانت حقيرة كالنوى وقشور الرمان والسنبل بعد الحصاد ينتفع بها بدون تعريف وللمالك أخذها ولا يجب دفع اللقطة إلى مدعيها إلا ببينة ويحل إن بين علامتها من غير جبر."

(کتاب اللقطة، الانتفاع باللقطة، ج:1، ص:529، ط:دار إحياء التراث العربي)

’’شرح المجلۃ‘‘ میں ہے:

"لایجوز لأحد أن یتصرف في ملك غیره بلا إذنه أو وکالة منه أو ولایة علیه، وإن فعل کان ضامنًا."

(شرح المجلة، ج:1، ص:41، مادة: 96، ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102704

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں