موجودہ صورت حال میں بیرون ملک میں جو مقیم بھائی موجود ہیں، ان کے پاس تو خرچ کے لیے بھی کچھ نہیں ہے، تو اسی صورت میں اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر اگر پاکستان میں ادا کیا جائے تو وضاحت فرمائیں کیسے کریں؟
جو شخص اتنا مال دار ہو کہ ا س پر زکاۃ واجب ہو، یا اس پر زکاۃ واجب نہیں لیکن قرض اور ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کے پاس موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے باون تولے چاندی کی قیمت تک پہنچ جائے تو ایسے شخص پر صدقہ فطر واجب ہے، اور یہ سامان چاہے تجارت کا ہو یا نہ ہو، چاہے اس پر سال گزرا ہو یا نہ ہو۔یہ شخص اپنی اور اپنی نابالغ اولاد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے گا۔اور جس شخص کے پاس اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔
لہذا جو لوگ موجودہ حالات کی بنا پر پاکستان میں یا باہر ممالک میں معاشی اعتبار سے پریشان حال ہوں، اور مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق ان کے پاس صدقہ فطر کے نصاب کے برابر سونا ، چاندی ، نقد رقم یا ضرورت سے زائد سامان جو ساڑھے باون تولہ چاندی کو پہنچتا ہو ،موجود نہ ہو ایسے افراد پر اپنی جانب سے اور اپنی نابالغ اولاد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
اگر کوئی آدمی غریب ہے، صاحبِ نصاب نہیں ہے، تو اس پرصدقہ فطر شرعی اعتبار سے واجب تو نہیں ہے، لیکن اگر وہ اپنی خوشی سے صدقہ فطر ادا کرنا چاہے تو ادا کرسکتا ہے اور اسے ثواب بھی ملے گا۔اگر باہر ملک میں مقیم شخص پاکستان میں اپنی یا اپنی نابالغ اولاد کی جانب سے صدقہ فطر دینا چاہے تو دے سکتا ہے ۔
صدقہ فطر اگر گندم کی صورت میں ادا کیا جائے تو اس کی مقدار پونے دو کلو گندم ہے چاہےکہیں بھی ادا کیا جائے، اور اگر اس کی قیمت ادا کرنی ہے تو جہاں ادائیگی کرنے والا موجود ہے وہاں کا اعتبار ہوگا، لہذا جو لوگ بیرون ملک میں مقیم ہیں اور عید الفطر وہیں کریں گے تو ایسے افراد اپنا اور اپنے نابالغ بچوں کا صدقہ فطر باہر ملک کے نرخ کے حساب سے ادا کریں گے، خواہ یہ قیمت وہیں باہر ملک میں ادا کریں یا پاکستان بھیج دیں یا ان کی اجازت سے پاکستان میں ادا کی جائے۔
صحيح البخاري ـ حسب ترقيم فتح الباري - (4 / 6):
"وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : لاَ صَدَقَةَ إِلاَّ عَنْ ظَهْرِ غِنًى".
مسند أحمد بن حنبل - (2 / 230):
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا صدقة الا عن ظهر غني واليد العليا خير من اليد السفلى وابدأ بمن تعول". فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109202238
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن