بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گردن پر مسح کرنا مستحب ہے


سوال

گردن پر مسح کرنےکی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب

کتبِ فقہ  میں جہاں گردن کے مسح کا ذکر ہے وہاں اس کو "رقبۃ"  کے لفظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے، اور لغت کی کتب سے معلوم ہوتا ہے کہ رقبہ کا اطلاق مکمل گردن پر ہوتا ہے، یعنی چاروں اطراف پررقبہ کا اطلاق ہوتا ہے،لیکن انہی کتبِ فقہ میں "حلقوم"  (گلے) کے مسح کو بدعت لکھا ہے، اس سے پتا چلتا ہے کہ گردن کا اگلا حصہ (گلا) مسح کے حکم میں داخل نہیں ہے، بلکہ مسح کا تعلق  دائیں بائیں اور پچھلے حصے(گدی) سے ہے؛لہٰذا  گدی کا مسح کرنا مستحب ہے، فرض، واجب یا سنت نہیں ہے،لیکن گلے کے مسح  بدعت ہے۔

نیل الاوطار میں ہے:

"عن أنس بن سيرين عن (ابن عمر أنه كان إذا توضأ مسح عنقه ويقول: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: من توضأ ‌ومسح ‌عنقه لم يغل بالأغلال يوم القيامة)."

(كتاب الطهارة، ‌‌باب مسح العنق، ج:1، ص:207، ط: دار الحديث، مصر)

تحفة الطلبة في تحقیق مسح الرقبة "میں ہے:

"(۱) روی أبونعیم في تاریخ أصفھان من حدیث ابن عمر أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: من توضأ ومسح عنقه وقي الغلّ یوم القیامة.

(۲) روی الدیلمي في مسند الفردوس من حدیث ابن عمر، مسح الرقبة أمان من الغلّ یوم القیامة، قال العلي القاري سندہ ضعیف، والضعیف یعمل به في فضائل الأعمال اتفاقاً، ولذا قال أئمتنا أنه مستحب أو سنة."

(۳) روی أبوعبید في کتاب الطہور عن عبد الرحمن بن مهدي عن المسعودي عن القاسم إبن عبد الرحمن عن موسی إبن طلحة أنه قال: من مسح قفاہ مع رأسه وقي الغلّ یوم القیامة․

(۴) حکی ابن ہمام من حدیث وائل في صفة وضوء رسول اللہ صلی اللہ عیہ وسلم، ثم مسح علی رأسه ثلاثًا وظاہر أذنیه وظاہر رقبته وأظنّه قال ظاہر لحیته، ثم غسل قدمه الیمنی الحدیث رواہ الترمذي․

(۵) روی أبو داوٴد وأحمد من حدیث طلحة ابن مصرّف عن أبیه عن جدّہ قال: رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسح رأسه مرة واحدة حتی بلغ القذال، ووقع في سنن أبي داوٴد وہو أول الفقاء․"

(ماخوذ تحفة الطلبة في تحقیق مسح الرقبة، منجمله أز رسائل مولانا عبد الحي الکھنوي رحمه الله)

اعلاءالسنن میں ہے:

"والذي ظهرلنامن تتبع اللغة والأحاديث أن مقدم العنق ومؤخره كلاهمافي جانب الرأس ،فمقدمه أي مبتدأه وهو مايلي القذال، أي مؤخرالرأس ومؤخر العنق مايلي مبتدأ الظهر ،والدليل على ذلك مافي حديث المتن برواية الطحاوي حتى بلغ القذال من مقدم عنقه."

(كتاب الطهارة، باب استحباب مسح الرقبة، ج:1، ص: 291، ط: المكتبة الأشرفية بديوبند)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ومسح الرقبة) بظهر يديه (لا الحلقوم) لأنه بدعة....وفي ردالمحتار(قوله: لأنه بدعة) إذ لم يرد في السنة."

(كتاب الطهارة، سنن الوضوء، ج:، ص:124، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101930

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں