بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر والوں سے دورہ کر دین کی خدمت کرنے کا حکم


سوال

گھر والوں سے دور رہ کر کسی جگہ مقیم ہو کر دین کا کام کرنا کیساہے؟

جواب

واضح رہے کہ  دین کی خدمت کے سلسلے میں  ہویادنیوی کسی کام کے سلسلے میں مثلاً معاش   وغیرہ  کی  تلاش میں آدمی  گھر والوں سے  چار ماہ تک دور رہ کرکام کرسکتاہے، بیوی کی اجازت اور  فتنوں سے مامون ہونے   کی  صورت میں  چار ماہ سے زائد بھی آدمی گھر سے دوررہ سکتاہے،لیکن اگر اتنا عرصہ دور رہنے کی صورت میں میاں بیوی میں سے کسی ایک کے بھی فتنے میں مبتلا ہونے کا یقین یا غالب گمان ہوتو پھر بیوی کی اجازت کے ساتھ بھی دور رہنا جائز نہ ہو گا ،جب کہ موجودہ حالات میں، تدریس،امامت ،یادنیوی  ملازمت، کمائی وغیرہ کے سلسلے میں  سالہا  سال بیوی بچوں  سے دور  رہنا فتنے سے خالی نہیں ہے اور  اتنی  مدت کے ليے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جانا کہ اس کے فتنے میں واقع ہونے غالب گمان ہو یا دیگر حقوق ضائع ہورہے ہوں ہرگز جائز نہیں۔

  فتاوی شامی میں ہے:

"ويؤيد ذلك أن عمر - رضي الله تعالى عنه - لما سمع في الليل امرأة تقول: فوالله لولا الله تخشى عواقبه لزحزح من هذا السرير جوانبه فسأل عنها فإذا زوجها في الجهاد، فسأل بنته حفصة: كم تصبر المرأة عن الرجل: فقالت أربعة أشهر، فأمر أمراء الأجناد أن لا يتخلف المتزوج عن أهله أكثر منها، ولو لم يكن في هذه المدة زيادة مضارة بها لما شرع الله تعالى الفراق بالإيلاء فيها."

(كتاب الطلاق، باب القسم بين الزوجات، ج:3، ص:203، ط:سعيد)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

’’ سوال: اگر کوئی شخص نوکری کے لیے سفر کرے، تو اپنی جوان عورت گھر میں چھوڑ کر کتنے ماہ رہنے سے گنہگار نہ ہوگا اور مرد کے لیے کتنے ماہ کی اجازت ہے؟

الجواب: صحت، قوت، شہوت صبر و تحمل کے اعتبار سے عورتوں کے حالات یکساں نہیں، تاہم چار ماہ سے زائد بلا بیوی کی رضامندی و اجازت کے باہر نہ رہے ۔‘‘

(ج:18،ص:574،سوال نمبر:9039،ط:ادارۃ الفاروق کراچی)

مسنداحمد میں  ہے:

"حدثنا أبو اليمان، أخبرنا إسماعيل بن عياش، عن صفوان بن عمرو، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير الحضرمي، عن معاذ قال: أوصاني رسول الله صلى الله عليه وسلم بعشر كلمات قال: " لا تشرك بالله شيئا وإن قتلت وحرقت، ولا تعقن والديك، وإن أمراك أن تخرج من أهلك ومالك، ولا تتركن صلاة مكتوبة متعمدا؛ فإن من ترك صلاة مكتوبة متعمدا فقد برئت منه ذمة الله، ولا تشربن خمرا؛ فإنه رأس كل فاحشة، وإياك والمعصية؛"‌ولا ‌ترفع ‌عنهم ‌عصاك ‌أدبا ‌وأخفهم ‌في ‌الله."

(ج:1، ص:393، ط: مؤسسة الرسالة)

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"يا أيها الذين آمنوا قوا أنفسكم وأهليكم نارا أي نوعا من النار وقودها الناس والحجارة تتقد بهما اتقاد غيرها بالحطب، ووقاية النفس عن النار بترك المعاصي وفعل الطاعات، ووقاية الأهل بحملهم على ذلك بالنصح والتأديب،

وروي أن عمر قال حين نزلت: يا رسول الله نقي أنفسنا فكيف لنا بأهلينا؟

فقال عليه الصلاة والسلام: تنهوهن عما نهاكم الله عنه وتأمروهن بما أمركم الله به فيكون ذلك وقاية بينهن وبين النار» .

وأخرج ابن المنذر والحاكم وصححه وجماعة عن علي كرم الله تعالى وجهه أنه قال في الآية: علموا أنفسكم وأهليكم الخير وأدبوهم، والمراد بالأهل على ما قيل: ما يشمل الزوجة والولد والعبد والأمة."

(سورة التحريم، ج:14، ص:351، ط: دارالکتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410101226

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں