بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 جُمادى الأولى 1446ھ 03 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر پر گھر والوں کا مرحوم کے لیے قرآن خوانی کرنا اور کھانا کھلانا


سوال

اگر گھر میں گھر والے ہی قرآن پڑھ کر مرحومین کو بخش دیں اور نیاز بھی رکھیں تو کیا یہ بھی بدعت میں شمار ہوگا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں گھر والے ہی گھر میں قرآن خوانی کرتے ہیں اور اس کا ثواب مرحوم کے لیے بخشتے ہیں تو اس کی اجازت ہے۔

البتہ نیاز کا ایک معنی عرف میں  یہ بھی ہے کہ لوگ بزرگوں کے ایصالِ ثواب کے لیے یا اپنے فوت شدہ اقارب کے لیے کھانا وغیرہ بنواکر اس پر فاتحہ وغیرہ پڑھ کر اسے  تقسیم کرتے ہیں تو اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اگر یہ نیاز ان ہی بزرگوں کے نام کی ہو، یعنی اس سے ان بزرگوں کا تقرب مقصود ہو تو  یہ حرام ہے، اس کا کھانا بھی حرام ہے؛ فقہاء و مفسرینِ کرام نے اسے مااہل بہ لغیر اللہ کے ضمن میں داخل کیا ہے۔ اور اگر یہ نیاز اللہ کی رضا کے لیے ہو، صرف  اس کا ثواب بزرگوں یا فوت شدگان کو پہنچایا جائے تو  اس کے جائز ہونے کے لیے چند شرائط ہیں:

1۔۔ اس کے لیے کوئی تاریخ مقرر کرکے اس کا اہتمام نہ کیا جائے، یعنی کسی دن کی تخصیص نہ کی جائے۔

2۔۔  نذر مانی گئی ہو تو جو کھانا کھلانا ہو وہ صرف فقراء کو کھلائے، مال داروں کو نہ کھلائے۔

3۔۔ اس کو لازم اور واجب نہ سمجھا جائے، اور نہ کرنے والوں پر لعن طعن نہ کی جائے۔

4۔۔ قرض لے کر اپنی وسعت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔

5۔۔ اور بھی کوئی خلافِ شرع کام اس کے ساتھ نہ ملائے۔

6۔۔ جن دنوں میں اہلِ بدعت وغیرہ کا شعار ہو ان دنوں میں بھی نہ کیا جائے۔

مذکورہ شرائط کے ساتھ نذر ونیاز  جائز ہے، لیکن موجودہ زمانہ میں اس کے جو طریقے رائج ہیں، ان میں مذکورہ شرائط کی رعایت نہیں کی جاتی، اور اس میں دیگر  بھی کئی مفاسد شامل ہوگئے ہیں، لہذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (مستفاد: آپ کے مسائل اور ان کا حل، امداد المفتیین) 

صحيح البخاري (7/ 132):

"عن ابن عباس: أن نفراً من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم مروا بماء، فيهم لديغ أو سليم، فعرض لهم رجل من أهل الماء، فقال: هل فيكم من راق، إن في الماء رجلاً لديغاً أو سليماً، فانطلق رجل منهم، فقرأ بفاتحة الكتاب على شاء، فبرأ، فجاء بالشاء إلى أصحابه، فكرهوا ذلك وقالوا: أخذت على كتاب الله أجرا، حتى قدموا المدينة، فقالوا: يا رسول الله، أخذ على كتاب الله أجراً، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أحق ما أخذتم عليه أجراً كتاب الله»".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 56):

"فمن جملة كلامه: قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لايستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لايجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر! ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان، بل جعلوا القرآن العظيم مكسباً ووسيلةً إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون - اهـ".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204201198

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں