بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں کتا پالنا


سوال

کیا گھر میں جرمن شیفرڈ کتا پالنا حلال ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شوقیہ طور پر کتا پالنا ناجائز ہے، حدیثِ پاک میں اس کی ممانعت منقول ہے، ایک حدیث میں ہے کہ جہاں کتا ہوتا ہے وہاں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔ ایک اور حدیث شریف میں ہے کہ  بلاضرورت کتا پالنے والے کے اعمال  میں سے روزانہ ایک قیراط کم کر دیا جاتا ہے؛ لہذا کتوں کو گھر میں رکھنا    خیر  و برکت سے محرومی کا باعث ہے، خواہ کتے کو صاف ستھرا رکھا جائے ؛ اس لیے کتوں کے پالنے سے اجتناب بہت ضروری ہے۔

 البتہ  اگر کتے کو  جانوروں  اور  کھیتی کی حفاظت کے لیے  یا  شکار کے لیے  پالا جائے تو اس کی شریعت نے اجازت دی ہے۔

نیز ملحوظ رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: اگر کسی برتن میں کتا منہ مار دے تو اس  کو سات مرتبہ دھونا چاہیے۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ جس برتن میں کتا منہ مار دے اس کو بہا دیا جائے اس کے بعد اس کو سات مرتبہ دھو لیا جائے۔ اس کے علاوہ کتے کے جھوٹے سے متعلق دیگر روایات بھی ہیں جن سے کتے کی نجاست ثابت ہوتی ہے۔  چنانچہ ان احادیث کی بنا پر فقہاءِ احناف نے کتے کو نجس قرار دیا ہے چاہے وہ جتنا بھی صاف ستھرا ہی کیوں نہ ہو۔

بخاری شریف میں ہے:

"لاتدخل الملائکة بیتًا فيه صورة ولا کلب".

(البخاري، رقم: ٤۰۰۲، ۵ /۱۸، بیروت)

ترجمہ: رحمت کے فرشتے ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں تصویر ہو یا کتا۔

سنن أبي داود میں ہے:

"2844 - حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنِ اتَّخَذَ كَلْبًا إِلَّا كَلْبَ مَاشِيَةٍ أَوْ صَيْدٍ أَوْ زَرْعٍ انْتَقَصَ مِنْ أَجْرِهِ كُلَّ يَوْمٍ قِيرَاطٌ»".

(كتاب الصيد، بَابٌ فِي اتِّخَاذِ الْكَلْبِ لِلصَّيْدِ وَغَيْرِهِ، ٣ / ١٠٨، ط:المكتبة العصرية، صيدا - بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَفِي الْأَجْنَاسِ: لَايَنْبَغِي أَنْ يَتَّخِذَ كَلْبًا إلَّا أَنْ يَخَافَ مِنْ اللُّصُوصِ أَوْ غَيْرِهِمْ وَكَذَا الْأَسَدُ وَالْفَهْدُ وَالضَّبُعُ وَجَمِيعُ السِّبَاعِ وَهَذَا قِيَاسُ قَوْلِ أَبِي يُوسُفَ - رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى - كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ.

وَيَجِبُ أَنْ يَعْلَمَ بِأَنَّ اقْتِنَاءَ الْكَلْبِ لِأَجْلِ الْحَرَسِ جَائِزٌ شَرْعًا وَكَذَلِكَ اقْتِنَاؤُهُ لِلِاصْطِيَادِ مُبَاحٌ وَكَذَلِكَ اقْتِنَاؤُهُ لِحِفْظِ الزَّرْعِ وَالْمَاشِيَةِ جَائِزٌ كَذَا فِي الذَّخِيرَةِ."

(كتاب الكراهية، الْبَابُ الْحَادِي وَالْعِشْرُونَ فِيمَا يَسَعُ مِنْ جِرَاحَاتِ بَنِي آدَمَ وَالْحَيَوَانَاتِ وَقَتْلِ الْحَيَوَانَاتِ وَمَا لَا يَسَعُ مِنْ ذَلِكَ، ٥ / ٣٦١، ط: دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407100910

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں