گھر کے کونے میں ایک جگہ نماز کے لیے خاص کردی ہے ،اب ضرورت کی بنا پر وہاں غسل خانه بنانے کا ارادہ ہے ،تو کیا اسی جگہ پر غسل خانہ بنانا جائز ہے؟ حوالہ کے ساتھ جواب مطلوب ہے۔
صورتِ مسئولہ میں گھر میں جس جگہ کو مصلی(جائے نماز) کے لیے مختص کیا تھا ،اب ضرورت پڑنے پر وہاں غسل خانہ بناناجائز ہے ،کیوں کہ وہ وقف نہیں ہے اور گھر والوں کی ملکیت ہے اور مالک کے لیے اپنی ملکیت کی چیزوں پر جائز طور پر تصرف کرنا جائز ہے۔
البحرالرائق میں ہے :
"فإن قلت: لو جعل مسجداً ثم أراد أن يبني فوقه بيتاً للإمام أو غيره هل له ذلك قلت: قال في التتارخانية إذا بنى مسجداً وبنى غرفة وهو في يده فله ذلك، وإن كان حين بناه خلى بينه وبين الناس ثم جاء بعد ذلك يبني لا يتركه. وفي جامع الفتوى: إذا قال: عنيت ذلك، فإنه لا يصدق. اهـ."
(5/ 271، کتاب الوقف، فصل فی احکام المسجد، ط: دارالکتاب الاسلامی، بیروت)
الدر المختار مع الشامی میں ہے :
"وَفِي الْقُهُسْتَانِيِّ وَلَا بُدَّ مِنْ إفْرَازِهِ أَيْ تَمْيِيزِهِ عَنْ مِلْكِهِ مِنْ جَمِيعِ الْوُجُوهِ فَلَوْ كَانَ الْعُلُوُّ مَسْجِدًا وَالسُّفْلُ حَوَانِيتَ أَوْ بِالْعَكْسِ لَا يَزُولُ مِلْكُهُ لِتَعَلُّقِ حَقِّ الْعَبْدِ بِهِ كَمَا فِي الْكَافِي. [تَنْبِيهٌ]."
(کتاب الوقف ،مطلب فی أحکام المسجد5/547،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144505101092
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن