بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں مادری زبان کی جگہ اردویا انگلش بولنے کا حکم


سوال

گھر میں اپنی مادری زبان چھوڑ کر اردو یا انگلش بولنے کا کیا حکم ہے ؟

جواب

گھر میں اردو یا انگریزی میں بات کرنا جائز ہے ،لیکن  یہ مشاہدہ ہے کہ کسی بھی زبان کے ساتھ اہلِ زبان کی ثقافت و نظریات کے اثرات آتے ہیں اور انگریزوں کی ثقافت و نظریات بلا شبہ مسلمانوں کے ایمان کے لیے کافی حد تک مہلک ہیں،اس لیے زیادہ سے زیادہ  اپنی مادری اور قومی زبان کو ترویج دینی چاہیے ۔

مرقاة المفاتيح  میں ہے :

"إذ لا يعرف في الشرع تحريم تعلم لغة من اللغات سريانية، أو عبرانية، أو هندية، أو تركية، أو فارسية، وقد قال تعالى: {ومن آياته خلق السماوات والأرض واختلاف ألسنتكم} [الروم: 22] ، أي: لغاتكم، بل هو من جملة المباحات، نعم يعد من اللغو، ومما لا يعني، وهو مذموم عند أرباب الكمال، إلا إذا ترتب عليه فائدة، فحينئذ يستحب كما يستفاد من الحديث."

(كتاب الآداب، باب السلام، ج7، ص2951، ط : دار الفكر)

امداد الفتاویٰ میں (سنسکرت" زبان سیکھنے کے متعلق ) ہے :

"اس کی تعلیم وتعلم کا فی نفسہ جائز ہونا تو بوجہ عدمِ مانع جواز کے ظاہر ہے۔ اور قاعدہ مقررہ ہے کہ جو امر  جائز کسی امرِ مستحسن یا واجب کا مقدمہ وموقوف علیہ ہو وہ بھی مستحسن یا واجب ہوتا ہے ... البتہ بعض روایات ایسے امور میں بعض ایسے عوارض خارجیہ کی وجہ سے جو کہ معلم یا صحبتِ ناجنس یا فسادِ نیت وسوء استعمال  یا احتمال افتنان یا اشتغال بما لا یعنی کی جہت سے ہوں، قبح لغیرہ محتمل ہوسکتا ہے۔"

(کتاب الحظر والاباحۃ، باب تعلیم وتعلم اور کتب ومدارس وغیرہ کے احکام، 8/ 502، ط: رشیدیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100911

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں