بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی چیزوں کے استعمال میں سربراہ کی اجازت کا حکم


سوال

عورت کا اپنے شوہر کے گھر اور اس کے گھر کی چیزوں اور اس کی چیزوں پر کتنا حق ہے؟  کیا وہ گھر سے جب چاہے جو چاہے بغیر اجازت استعمال کر سکتی  ہے یا کھانا جو بھی چاہے بغیر اجازت کھا سکتی  ہے یا ہر ہر چیز استعمال کرنے کے لیے سربراہ کی اجازت کی ضرورت ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جو  جو  چیزیں عرفاً استعمال کرنے کا عام طور پر اختیار ہوتا ہے  وہی چیزیں عورت بغیر  اجازت کے استعمال کرسکتی ہے اور  اگر  گھر کے سربراہ  کی مملوکہ کسی  چیز سے متعلق کوئی خاص پابندی ہو تو اس صورت  میں اس کی اجازت لینا ضروری ہے؛  کیوں کہ شوہر اپنی تمام چیزوں کا تنِ  تنہا مالک ہے،  اس کی دیگر اشیاء کے  استعمال کے لیے  اس  کی  اجازت کا لینا ضروری  ہے۔  

وفي مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح :

"عن عائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا أنفقت المرأة من طعام بيتها غير مفسدة كان أجرها بما أنفقت، ولزوجها أجره بما كسب، وللخازن مثل ذلك، لاينقص بعضهم أجر بعض شيئًا ". متفق عليه.

و هذا محمول على إذن الزوج لها بذلك صريحًا أو دلالةً، و قيل: هذا جار على عادة أهل الحجاز، فإن عاداتهم أن يأذنوا لزوجاتهم وخدمهم بأن يضيفوا الأضياف، ويطعموا السائل والمسكين والجيران، فحرض رسول الله صلى الله عليه وسلم أمته على هذه العادة الحسنة، والخصلة المستحسنة."

(4/ 1357ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

وفي عمدة القاري شرح صحيح البخاري:

"اختلف الناس في تأويل هذا الحديث، فقال بعضهم: هذا على مذهب الناس بالحجاز، وبغيرها من البلدان: إن رب البيت قد يأذن لأهله وعياله وللخادم في الإنفاق بما يكون في البيت من طعام أو أدام، ويطلق أمرهم فيه إذا حضره السائل ونزل الضيف، وحضهم رسول الله صلى الله عليه وسلم على لزوم هذه العادة ووعدهم الثواب عليه، وقيل: هذا في اليسير الذي لا يؤثر نقصانه ولا يظهر، وقيل: هذا إذا علم منه أنه لايكره العطاء فيعطي ما لم يجحف، وهذا معنى قوله: غير مفسدة."

(8/ 292 دار إحياء التراث العربي - بيروت)

 

الدر المختار و حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 200):

"لايجوز التصرف في مال غيره بلا إذنه و لا ولايته."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں