میری شادی کے ولیمہ والے دن میرے سسر نے میری ساس کو کئی وجوہ سے طلاق دے دی تھی،اور مجھے معلوم نہیں تھا،میری شادی کے بعد میری ساس ہر ہفتہ جاتی تھیں،ایک دن میں نے اپنے شوہر سے پوچھا کہ امی ہر ہفتہ کہاں جاتی ہیں،تو انہوں نے بتایا کہ میری امی نے ابو کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص کے ساتھ نکاح کیا ہے،اب وہ آدمی ان کو طلاق نہیں دے رہا،پوچھنا یہ ہے کہ اب وہ پہلے والے شوہریعنی میرے سسر کے ساتھ میاں بیوی کی طرح رہتی ہے،اور دوسرے شوہر کے پاس ہر ہفتہ جاتی ہیں،میں نے اپنے شوہر کو بتایا تھا کہ اس طرح تو ٹھیک نہیں ہے،لیکن وہ آگے سے خاموش ہو گئے،اب مجھے اس گھر میں بطورِ بہو رہنا چاہیے یا نہیں؟کیا میں ان کے ساتھ اس گناہ میں شامل ہو رہی ہو یا نہیں ؟
کیا مجھے اپنے شوہر کو لے کر الگ ہونا چاہیے؟ یا اسی گھر میں رہنا چاہیے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً سائلہ کے سسر نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں،تو سائلہ کا سسر اس(مطلقہ بیوی) کے لیے اجنبی مرد کے حکم میں ہے،لہذا جس طرح کسی اجنبی شخص سے پردہ کرنا ،بلا ضرورت باتیں نہ کرنا،میل جول سے بچنا ضروری ہے،اسی طرح سائلہ کی ساس کا اپنے پہلے شوہر سے پردہ کرنا،بلا ضرورت باتیں نہ کرنا،میل جول سے اجتناب کرنا ضروری ہے،لہذا اس کو چاہیے کہ جس شخص کے ساتھ نکاح ہوا ہے،اس کے ساتھ رہے،اور سابقہ شوہر سے میاں بیوی والا تعلق فوراً ختم کر ے۔
سائلہ اپنی استطاعت کے مطابق ان کی اصلاح کی فکر کرے،اگر خود ان کو سمجھا سکتی ہے،اور اس میں مصلحت سمجھتی ہے،تو ان کو براہِ راست سمجھا دے،البتہ اگر سائلہ کو براہِ راست بات کرنے میں اپنے لیے بغض،کینہ وغیرہ کا خطرہ ہو،تو اپنے شوہر کو سمجھادیں کہ وہ اپنے والدین کو مصلحت کے ساتھ سمجھا دیں ،البتہ اگر وہ سمجھانے کے باوجود اپنے اس گناہ سے باز نہیں آتے،تو سائلہ پر اس میں کوئی گناہ نہیں ہے،اور اگر سائلہ کا شوہر الگ گھر کی استطاعت رکھتا ہے،تو سائلہ کے ساس اور سسر کا اپنے اس عمل سے توبہ نہ کرنے کی صورت میں سائلہ کے لیے الگ گھر میں رہنا بہتر ہے،البتہ اگر شوہر کی مالی حالت اتنی بہتر نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کے لیے الگ گھر کا انتظام کر سکےتو جب تک انتظام نہیں ہو تا، سائلہ کے لیے موجودہ گھر میں رہنا چاہیے فی الوقت شوہر سے علیحدہ گھر کا مطالبہ نہ کیا جائے۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے:
"عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " «من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان» ".
(كتاب الآداب، باب الأمر بالمعروف، الفصل الأول، ج:3، ص:1421، ط:المكتب الإسلامي - بيروت)
ترجمہ:
"حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ رسول ِ کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا"تم میں سے جو شخص کسی خلافِ شرع امر کو دیکھے(یعنی جس چیز کو شریعت کے خلاف جانے)تو اس کو چاہیے کہ اس چیز کو اپنے ہاتھوں سے بدل ڈالے(یعنی طاقت کے ذریعہ اس چیز کو نیست و نابود کر دے،اور اگر وہ (خلاف شرع امر کے مرتکب کے زیادہ قوی ہونے کی وجہ سے)ہاتھوں کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دے(یعنی خلاف شرع امور کے بارے میں وعید کی آیتیں اور احادیث سنائے،خدا کے عذاب سے ڈرائے،پند و نصیحت کرے اور اگر کوئی سیدھی طرح نہ مانے تو سخت سُست کہے)اور اگر زبان کے ذریعہ بھی اس امر کو انجام دینے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر دل کے ذریعہ اس امر کو انجام دے(یعنی اس کو دل سے بُرا جانے قلبی کڑھن رکھےاور اس عزم و ارادہ پر قائم رہے کہ جب بھی ہاتھ یا زبان کے ذریعہ اس امر کو انجام دینے کی طاقت حاصل ہو گی تو اپنی ذمہ داری کو ضرور پورا کرے گا،نیز اس خلاف شرع امر کے مرتکب کو بھی بُرا جانے اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرے)اور یہ (آخری درجہ)ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔"
(مظاہرِ حق جدید، ج:4، ص:604، ط:دارالاشاعت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ولا بد من سترة بينهما في البائن) لئلا يختلي بالأجنبية، ومفاده أن الحائل يمنع الخلوة المحرمة.
(قوله: ولا بد من سترة بينهما في البائن) وفي الموت تستتر عن سائر الورثة ممن ليس بمحرم لها هندية.۔۔۔ (قوله: ومفاده أن الحائل إلخ) أي مفاد التعليل أن الحائل يمنع الخلوة المحرمة. ويمكن أن يقال في الأجنبية كذلك وإن لم تكن معتدته إلا أن يوجد نقل بخلافه بحر".
(کتاب النکاح، باب العدة، فصل في الحداد، ج:3، ص:537، ط:ایچ ایم سعید)
فتح الباری میں ہے:
"(قوله باب ما يجوز من الهجران لمن عصى)
أراد بهذه الترجمة بيان الهجران الجائز لأن عموم النهي مخصوص بمن لم يكن لهجره سبب مشروع فتبين هنا السبب المسوغ للهجر وهو لمن صدرت منه معصية فيسوغ لمن اطلع عليها منه هجره عليها ليكف عنها".
(كتاب الأدب، باب ما يجوز من الهجران لمن عصى، ج:10، 497، ط:المكتبة السلفية - مصر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101415
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن