بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر بنانے کے لیے قرضۂ حسنہ لینے کا حکم


سوال

مجھے گھر کی تعمیر کے لیے رقم درکار ہے، اگر اسلامی بینک( میزان بینک) بھی سود سے پاک نہیں تو پھر آپ یہ بتائیں کہ بغیر کسی نفع کے کون قرض دینے کے لیے آمادہ ہوگا؟  اسلام میں اس کا متبادل کیا  ہوگا؟ مثلاً ایک شخص یا ایک  ادارہ مجھے دس لاکھ روپے دے اور میں اس کو ہر ماہ تین سال تک ایک طے شدہ رقم دوں تو اس کو تین سال تک رقم مجھے دینے کا کیا فائدہ ؟اسلام میں اس کا کیا حل  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعت مقدسہ  میں قرضہ لینااور  دینا جبکہ وہ سود اور شائبہ سود سے پاک ہو جائز ہے، ایسے آدمی کے لیے جو اپنے مسلمان بھائی کو قرضہ حسنہ دے کر اسکی ضرورت کو پوری کرے انعامات کا وعدہ ہے، اور وہ قرضہ جو کہ سود  پر مبنی  ہو  وہ ناجائز اور حرام  ہے اوراس کے لینے اور دینے والے کے لیے  مختلف وعیدیں  آئی ہیں، اور گھر بنانا ایک ضرورت ہے لیکن ایسی ضرورت نہیں جسکی  وجہ سے حرام کا ارتکاب کیا جائے، اور سود کے معاملہ میں  ملوث ہوجائے، رہائش کی ضرورت کرایہ کے گھر سے بھی پوری  ہوسکتی ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کوشش کرے کہ کسی رفاہی ادارہ یا کسی  مالدار شخص سے  باہمی موافقت سےقرضہ حسنہ کے طور پر (جو سود اور شائبہ سود سے پاک ہو) رقم حاصل کرکے گھر بنائے،اور اگر یہ سہولت میسر نہ ہو تو صبر کرے اور محنت جاری رکھے اور اللہ سے مانگتے رہے کہ اللہ تعالی کوئی جائز سبیل پیدا کردے،  سائل کا اس طرح کہنا  کہ:قرض پر لی گئی اتنی ہی رقم کے واپس کرنے میں قرض دینے والا آدمی کا کیا فائدہ؟ ؛ یہ سوچ  کسی مسلمان کی شایان شان نہیں؛  کیوں کہ    یہ سوچ سودخوروں کی ہے اسلامی نہیں۔جوشخص اپنے مسلمان بھائی کی دنیوی ضرورت  پوری کرتاہے  اگر چہ دنیا میں ظاہرا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا،  لیکن آخرت میں اللہ تعالی  ایسے شخص کو  بہت سارے انعامات سے نواز یں گے اور دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ  اس میں برکت دیتے ہیں۔

اللہ تعالی کا ارشاد ہے:

[یٰۤاَ یُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ،فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ]

ترجمہ: ’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہےوہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔‘‘               (البقرۃ: ۲۷۸- ۲۷۹) 

حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (اجتنبوا السبع ‌الموبقات). قالوا: يا رسول الله، وما هن؟ قال: (الشرك بالله، والسحر، وقتل النفس التي حرم الله إلا بالحق، وأكل الربا، وأكل مال اليتيم، والتولي يوم الزحف، وقذف المحصنات المؤمنات الغافلات)."

[صحيح البخاري، باب رمي المحصنات، ج:6، ص:2515، ط:دار ابن كثير]

ترجمہ: ’’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو،صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! وہ سات بڑے گناہ کون سے ہیں؟ (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: شرک کرنا، جادو کرنا، کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کے مال کو ہڑپنا، (کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا اور پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من نفس عن مؤمن كربة ‌من ‌كرب ‌الدنيا، نفس الله عنه كربة من كرب الآخرة، ومن ستر على مسلم، ستره الله في الدنيا والآخرة، والله في عون العبد، ما كان العبد في عون أخيه»".

[سنن الترمذي،ج:4، ص:34 ط:ومطبعة مصطفى البابي الحلبي]

 ترجمہ:"جس نے کسی مومن کی دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کردی، اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کردے گا اور  جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اللہ تعالیٰ برابر بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے"۔

اعلاء السنن میں ہے:

"وکل قرض شرط فيه الزیادۃ فهو حرام بلا خلاف، قال ابن المنذر: أجمعوا علی أن المسلف إذا شرط علی المستسلف زیادة  أو هدية، فأسلف علی ذٰلک أن أخذ الزیادۃ علی ذٰلک ربا، قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: کل قرض جر منفعة فهو ربا".

[کتاب الحوالة/ باب کل قرض جر منفعة فهو ربا ج:14ص:513ط: إدارۃ القرآن کراچی]

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100342

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں