بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں والوں کا رشوت دے کر نہر کا قطر بڑھوا کر زیادہ پانی حاصل کرنے کا حکم


سوال

ہمارے دیہات میں کھیتوں کو لگانے کے  لیے نہری پانی حکومت کی جانب سے حصہ بقدرِ زمین دیا جاتا ہے ایک گاؤں کے لئے ایک ایک نالہ پانی دیا جاتا ہے جسکا قطر طے شدہ ہوتا ہے اس قطر کے چھوٹا یا بڑا ہونے کی صورت میں پانی کی مقدار کم یا زیادہ ہوسکتی ہے یہاں کے لوگ رشوت دے کر حکومتی اہلکار سے نالے کا قطر زیادہ کروا لیتے ہیں جس سے کھیتوں کے لیے پانی زیادہ ہو جاتا ہے جسے آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں صورتِ  مسئولہ میں پانی کا استعمال جائز ہے یا ناجائز؟  میں تو پانی کی مقدار بڑھانے میں شامل نہیں ہوں۔کیا اس پانی کا بیعانہ جو کہ سرکاری طور پر مقرر لگان ہوتا ہے زیادہ دینے سے زیادہ پانی استعمال کرنا میرے لیے جائز ہو جائے گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائل کے دیہات والوں کا رشوت دے کر اپنے نالے کا قطر بڑھوانا تاکہ زیادہ پانی ملے شرعا جائز نہیں ہے اور اس پر سخت گناہ ہوگا کیونکہ حکومت کی طرف مفاد عامہ کی خاطر نہری پانی کو لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے کا ایک طریقہ کار (کہ زمین کے حساب سے  ایک مخصوص قطر کا نالہ دیا جاتا ہے) بنایا گیا ہے تاکہ تمام لوگوں کو مساوی مقدار میں پانی ملتا رہے اور کسی کی حق تلفی نہ ہو ، لہذا لوگوں کے حقوق کی حفاظت اور مفاد عامہ کے پیش نظر اس قانوں پر عمل کرنا دیہات والوں پر ضروری ہے اور اس کی خلاف ورزی کرنے کے لیے رشوت دینا نا جائز ہے۔

نیز سائل کو بھی چاہیے اپنے حق کے مطابق  ہی پانی استعمال کرے، دیہات والوں کے  رشوت دینے کی وجہ سے جو زائد پانی حاصل ہوا سائل اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔اس کےساتھ  سائل کو چاہیے کہ وہ خود کوئی ایسی تدبیر کرے یہ غیر قانونی عمل رک جائے، سائل کے دیہات کو ضابطہ کے مطابق ہی پانی ملے  تا کہ دیگر دیہات کو  پانی کی قلت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ 

نوٹ: باقی سائل کا یہ سوال کہ لگان زیادہ ادا کرنے سے زیادہ پانی استعمال کرنا جائز ہوگا یا نہیں تو  اس کا حکم متعلقہ قانون کے معلوم ہونے پر ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو أراد واحد منهم أن يوسع كوة نهره لم يكن له قال لأنه يدخل فيها الماء زائدا على حقه فلا يملك ذلك ولو كرى أسفل النهر جاز ولو زاد في عرضه لا يجوز كذا في البدائع."

(کتاب الشرب ، باب ثالث، ج نمبر ۵، ص نمبر ۳۹۷، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں