بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں میں جمعہ نہ ہونے کی وجہ


سوال

 گاؤں میں جمعہ نہ ہونے کی علت کیا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے چند شرائط ہیں:  جن میں سے ایک  شرط  شہر ،مضافات شہر یا بڑی بستی /بڑاگاؤں کا ہونا(جبکہ مجموعی آبادی بھی کم از کم دو ہزار نفوس پر مشتمل ہو) ہے، اس لیے مذکورہ شرط نہ پائے جانے کی وجہ  سے  گاؤں میں جمعہ کی نماز ادا کرنا درست نہیں،  اور اس سے متعلق   کتبِ احادیث میں  منقول  حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول  بھی حجت ہے، وہ فرماتے ہیں: "جمعہ اور تشریق (عید) جائز  نہیں ہے مگر شہر میں"  یعنی جمعہ اور عیدین کی نماز صرف بڑے شہر میں ہی ادا کی جاسکتی ہے، نیز نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی مدینہ ہی میں جمعہ قائم کیا جاتا تھا، آس پاس کے دیہاتوں میں جمعہ قائم نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ مدینہ سے باہر بہت سی بستیوں کے لوگ مسلمان ہوگئے تھے، اور بہت سے علاقے فتح ہوگئے تھے، پھر بھی وہاں جمعہ قائم نہیں کیا گیا، جب کہ وہاں کے لوگ مدینہ میں حاضر ہوکر جمعے میں شریک نہیں ہوسکتے تھے؛ یہاں تک کہ  "جواثیٰ"  کے لوگوں (یعنی وفدِ عبد القیس )  نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر بخوشی اسلام قبول کیا، اور واپس اپنے علاقے میں  جاکر  سنہ 7 ہجری میں "جواثیٰ" (جو اس وقت بہت بڑا قصبہ اور مرکزی حیثیت رکھتا تھا) میں جمعہ قائم کیا، اور  مدینہ کے بعد  یہ پہلی  جگہ تھی جہاں جمعہ قائم کیا گیا۔ 

اسی طرح صحابہ کرامؓ نے فتوحات کے بعد صرف شہروں میں ہی جمعہ کے قیام کا اہتمام کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر امت کا  اجماع ہے کہ جمعہ قائم کرنے کے لیے شہر ، فناء شہر یا بڑے گاؤں کا ہونا شرط ہے۔ نیز یہ بھی کہ   جمعہ چوں کہ شعائرِ اسلام میں سے ہے،  اس کے مناسب بھی یہی ہے کہ وہ بڑی جگہوں پر ہی قائم کیا جائے۔ چناں  چہ  جمعہ  کے قیام کے لیے شہر یا ایسی بستی ہونا ضروری ہے ،   جہاں تمام ضروریاتِ  زندگی بآسانی دست یاب ہوں، ہسپتال، ڈاک خانہ، تھانہ وغیرہ کا انتظام ہو اور اس گاؤں میں بازا ر اور دوکانیں موجود ہوں ،اور اس بازار میں ضروریاتِ  زندگی کا سامان باسہولت مل جاتا ہو،تو  وہاں جمعہ   کی نماز قائم کرنا درست ہوتاہے،اور اگر مندرجہ بالا شرائط نہ پائی جائیں ،تو وہاں  جمعہ  کی نماز قائم کرنا درست نہیں، اور گاؤں میں مذکورہ شرائط نہیں پائی جاتی، اس بناء پر گاؤں میں جمعہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله شرط أدائها المصر) أي شرط صحتها أن تؤدى في مصر حتى لا تصح في قرية ولا مفازة لقول علي - رضي الله عنه - لا جمعة، ولا تشريق، ولا صلاة فطر، ولا أضحى إلا في مصر جامع أو في مدينة عظيمة. رواه ابن أبي شيبة وصححه ابن حزم وكفى بقوله قدوة وإماما. وإذا لم تصح في غير المصر فلا تجب على غير أهله.

وفي حد المصر أقوال كثيرة اختاروا منها قولين: أحدهما ما في المختصر. ثانيهما ما عزوه لأبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث. قال في البدائع: وهو الأصح وتبعه الشارح، وهو أخص مما في المختصر. وفي المجتبى وعن أبي يوسف أنه ما إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم للصلوات الخمس لم يسعهم، وعليه فتوى أكثر الفقهاء. وقال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه، وفي الولوالجية وهو الصحيح."

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجمعة، ج: 2، ص: 245۔247، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق... وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر."

(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج: 2، ص: 138، ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها... ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعا منهم على أن المصر شرط؛ ولأن الظهر فريضة فلا يترك إلا بنص قاطع والنص ورد بتركها إلا الجمعة في الأمصار ولهذا لا تؤدى الجمعة في البراري؛ ولأن الجمعة من أعظم الشعائر فتختص بمكان إظهار الشعائر وهو المصر."

(كتاب الصلاة، فصل بيان شرائط الجمعة، ج: 1، ص: 259، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144502100839

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں