بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں میں جمعہ و عیدین اور فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کا حکم


سوال

1: میراتعلق گاؤں میرزاسربلندی تحصیل گل بانڈی ضلع بونیرKPKسے ہے ، جناب عالی میرااورمیرے گاؤں کاایک مسئلہ ہے جس کےلیے میں آپ جناب سے درخواست کرتاہوں کہ ہمارے گاؤں کامسئلہ حل کیاجائے ، میرے گاؤں کی آبادی ایک سودس افراد پرمشتمل ہے ، ہمارے گاؤں کے ساتھ دوسراگاؤں ہے جس کی آبادی دوسوپندرہ افرادپر مشتمل ہے ، ہمارے گاؤں میں سات ڈاکٹر کام کرتےہیں ، اسکول ٹیچرکی تعداد پچیس ہے ، مارکیٹ میں  تقریبادس دکانیں ہیں ، ہمارے گاؤں میں موجودایک مسجدہے ، جس میں پانچ وقت نمازہوتی ہے، لیکن اب تک اس میں جمعہ کی نماز نہیں ہوئی ہے ، کیوں کہ گاؤں کے لوگ کہتےہیں کہ یہاں جمعہ کی نماز نہیں ہوتی ، اس لیے گاؤں کے لوگ ایک دوسرے گاؤں نمازکےلیے جاتے ہیں ،جوکہ ہمارے گاؤں سے تقریباتین کلومیٹردورواقع ہے ، جب کہ ہمارے گاؤں کےساتھ کچھ دوسرے گاؤں ہیں جوکہ آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ہیں ، لیکن وہاں جمعہ کی نمازہوتی ہے ، لیکن ہمارے گاؤں کے لوگ نہیں مانتے ہیں ، جب کہ ہمارے گاؤں کی مسجد میں عید کی نمازہوتی ہے ،اورساتھ ایک گاؤں جس کاذکر میں نے کیاہے وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی نماز میں شامل ہوتےہیں ۔ برائے مہربانی ہماری رہنمائی فرماتےہوئے ہمیں فتوی جاری کیاجائے کہ ہم کیاکریں ؟

اپنے گاؤں کی مسجد میں جس میں پانچ وقت نمازہوتی ہے ، جمعہ کی نمازشروع کردیں ؟اورعیدکی نمازہم پہلے ہی اس میں اداکرتےہیں ۔

2: ایک اورمسئلہ نماز کے بعددعامانگناجائزہے کہ نہیں ،فرض نمازکے بعد اجتماعی دعاکی جائے یانہیں؟

جواب

1: واضح رہے کہ جمعہ کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط شہریا اس کے مضافات کا ہونا ہے،اور قریہ کبیرہ یعنی بڑا گاؤں بھی شہر کے حکم میں داخل ہے، لہذا  بڑے گاؤں میں بھی جمعہ ادا کرنا نہ صرف درست ہے بلکہ واجب ہے  ،بڑا گاوں اس بستی کو کہا جاتا ہے جو لوگوں کے عرف میں بڑی بستی کہلاتی ہو، چنانچہ جس بستی کی مجموعی آبادی ڈھائی  تین ہزار افراد پر مشتمل ہو اور وہاں ضروریات زندگی میسر ہوں وہ عرف میں قریہ کبیرہ یعنی بڑی بستی کہلاتی ہے، اور جس بستی کی آبادی اس سےکم ہو اور وہاں ضروریاتِ زندگی بھی میسر نہ ہوں تو وہ قریہ صغیرہ کہلاتی ہے جس میں جمعہ و عیدین  کی نماز قائم کرنا جائز نہیں ،بلکہ جمعہ کے دن باجماعت ظہر کی نماز ادا کرنے کا حکم ہے۔ 

مذکورہ تفصیل کی رو سے   مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی شرائط نہیں پائی جاتی ہیں ، لہذاوہاں میں جمعہ اورعیدین کی نمازقائم کرنادرست نہیں ہے البتہ اگرپہلےسے عید کی نماز جاری ہواورعید کی نماز موقوف کرنے کی صورت میں فتنہ فساد کااندیشہ ہوتوعید کی نماز جاری رکھنے کی گنجائش ہے ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء الظهر."

(كتاب الصلاة،باب الجمعة،138/2،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"وفي القنية: صلاة العيد في القرى تكره تحريما أي لأنه اشتغال بما لا يصح لأن المصر شرط الصحة.

(قوله: صلاة العيد) ومثله الجمعة ح (قوله بما لا يصح) أي على أنه عيد، وإلا فهو نفل مكروه لأدائه بالجماعة."

(كتاب الصلاة،باب العيدين،167/2،ط: سعيد)

2:فرض  نماز کے بعد دعا کرنانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین سے ثابت ہے اور   فرض نمازوں کے بعد دعا کا مقبول ہونا بھی مختلف احادیث میں وارد ہے، جس کا تقاضہ یہ ہے کہ ہرفرض نماز پڑھنے والا اپنی نماز کے بعد دعا کرے، چاہے امام ہو یامقتدی یامنفرد، اب اگر جماعت سے نماز ادا کی جارہی ہوگی ،تو ہرایک کے انفراداً دعا کرنے سے ایک اجتماعی ہیئت معلوم ہوگی، لہذا ہاتھ اٹھاکراجتماعی دعا کرنا فی نفسہ ثابت ہے۔

مقتدی  دعا میں شریک ہونے اور اس کو مکمل کرنے کا پابند نہیں،  بلکہ اس کو اختیار ہے کہ چاہے تو فرض نماز کے بعد امام کے ساتھ دعا پوری کرے، چاہے تو امام کی دعا سے پہلے اپنی دعا ختم کرے، اورچاہے تو امام کی دعا کے بعد بھی دعا مانگے، البتہ دعا کے آداب میں سے ہے کہ ہاتھ اٹھا کر دعا کی جائے  اور آں حضرت ﷺ سے بھی  دعا میں ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔ اور یہ دعا سر اً افضل ہے، البتہ تعلیم کی غرض سے  کبھی کبھار امام  جہراً بھی دعا کرا سکتا ہے۔

'المعجم الکبیر ' میں  علامہ طبرانی رحمہ اللہ نے حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی سے ایک روایت ذکر کی ہے کہ  محمد بن یحیی اسلمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے عبد اللہ بن  زبیر  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا  ،انہوں نے ایک شخص کو دیکھا کہ  وہ نماز سے فارغ ہونے سے پہلے ہی ہاتھ اٹھا کر دعا کررہا تھا تو جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو  حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے فرمایا: رسول اللہ ﷺ جب تک نماز سے فارغ نہ ہوتے  اس وقت تک (دعا کے لیے) ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے ( لہذا تم بھی ایسا ہی کرو)۔

"حدثنا محمد بن أبي يحيى، قال: رأيت عبد الله بن الزبير ورأى رجلاً رافعاً يديه بدعوات قبل أن يفرغ من صلاته، فلما فرغ منها، قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يكن يرفع يديه حتى يفرغ من صلاته»."

(المعجم الكبير للطبرانی 13/ 129، برقم: 324)

حضرت علامہ محمدانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ نے "فیض الباری" میں اور محدث العصر حضرت مولانا محمد یوسف بنوری نوراللہ مرقدہ نے اپنے فتاویٰ میں لکھاہے کہ فرائض کے بعد موجودہ ہیئت کے مطابق اجتماعی دعا کرنا سنتِ مستمرہ تو نہیں ہے، لیکن اس کی اصل ثابت ہے؛ اس لیے یہ بدعت  نہیں ہے، اسے بدعت کہنا غلو ہے۔

مراقي الفلاح بإمداد الفتاح شرح نور الإيضاح ونجاة الأرواح" میں ہے:

"(ثم يدعو الإمام لنفسه وللمسلمين) بالأدعية المأثورة الجامعة لقول أبي أمامة: قيل: يا رسول الله أي الدعاء أسمع؟ قال: "جوف الليل الأخير ودبر الصلوات المكتوبات ولقوله صلى الله عليه و سلم: "والله إني لأحبك أوصيك يا معاذ لاتدعن دبر كل صلاة أن تقول: "اللهم أعني على ذكرك وشكرك وحسن عبادتك " ( رافعي أيديهم ) حذاء الصدر وبطونها مما يلي الوجه بخشوع وسكون،ثم يمسحون بها وجوههم فى آخره اي:عند الفراغ."

(باب صفة الصلوة، ص:316، ط:مكتبه رشيديه)

العرف الشذي شرح سنن الترمذي" میں ہے:

"و ليعلم أن الدعاء المعمول في زماننا من الدعاء بعد الفريضة رافعين أيديهم على الهيأة الكذائية لم تكن المواظبة عليه في عهده عليه الصلاة والسلام."

(باب ماجاء فى كراهية ان يخص الامام نفسه فى الدعاء، ج:1، ص:346، ط:دار إحياء التراث العربى)

اس مسئلہ میں اکابر علماءِ کرام نے خوب تحقیق و عرق ریزی کے بعد تفصیلی رسائل تحریر کیے ہیں جن میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کا معمول نقل کیا ہے؛ دیکھیے:

1-  "استحباب الدعوات عقيب الصلوة"  مؤلف:حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ.

2-  "النفائس المرغوبة في حكم الدعاء بعد المكتوبة"مؤلف: حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ (مفتی اعظم ہند)

3-  "التحفة المرغوبة في أفضلية الدعاء بعد المكتوبة"مؤلف: حضرت مولانا مخدوم محمد ہاشم ٹھٹھوی رحمہ اللہ۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں