بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں میں جمعہ کا حکم


سوال

ہمارے گاؤں کا نام پرمولی ہے ،جو تحصیل رزڑ، ضلع صوابی میں واقع ہے۔ اور اس کی آبادی تقریباً 18000 ہے۔ ہمارے گاؤں میں بہت سے محلے ہیں۔ لیکن ہمارا محلہ گاؤں سے تھوڑا باہر ہے۔ ہمارے محلے میں تقریباً 20 کے قریب گھر ہے۔ اور تقریباً 100 کے قریب افراد ہیں۔ہمارے محلےمیں نہ کوئی دوکان ہے اور نہ کوئی اور سہولت موجود ہے۔اور نہ کوئی مین سڑک ہمارے محلے میں ہے۔ ہمارے محلے سے تقریباً 400 میٹر سے لیکر800 میٹر کے فاصلے پر چارجامع مسجدیں ہیں۔ جن کا فاصلہ تقریباً بالترتیب 400 میٹر، 450 میٹر ، 600 میٹر،اور 800 میٹر ہے۔ کریانہ، سبزی اور حجام وغیرہ کی دوکانیں ہمارے دوسرے محلے میں ہیں  ،جو ہم سے تقریباً750 سے 800 میٹر دور ہے ،جس سے ہم اپنی ضروریات زندگی پوری کرتے ہیں۔ ہمارے محلے میں ایک مسجد ہے جس میں ہم اب جمعہ کی نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔ تو اس مسئلے کے بارے میں علمائے کرام کیا فرماتے ہیں۔کہ کیا ہم اس مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھ سکتے ہیں کہ نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں جمعہ کے قیام  کے لیے شہر /قصبہ /قریہ کبیرہ کا ہو نا شرط ہے جس کی مجموعی آبادی کم ازکم دو تین ہزار افراد پر مشتمل  ہوتو ایسی جگہ میں جمعہ  کی نماز قائم  کرنا جائز ہے،اور جہاں اتنے افراد نہیں ہیںوہاں جمعہ  كي نماز قائم کرنا جائز نہیں ،لہذا سائل کے مذکورہ  محلے میں  جمعہ کی ادائیگی کی شرائط نہ پائی جانے کی وجہ سے جمعہ ادا کرنا جائز نہیں، بلکہ جمعہ کے دن ظہر کے وقت ظہر کینماز پڑھیں، یا جہاں جمعہ کی نماز درست ہے وہاں جاکر جمعہ کی نماز پڑھیں۔

بدائع الصنائع   میں ہے:

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات، المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت."

(کتاب الصلوة، فصل: بيان شرائط الجمعة: 1/ 259، ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات ‌والقرى ‌الكبيرة التي فيها أسواق."

(‌‌كتاب الصلاة، باب باب الجمعة: 2/ 138، ط: سعید)

البناية شرح الهداية  میں ہے:

"(والمصر الجامع كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود) ش: هذا تفسير المصر الجامع، وقد اختلفوا فيه، فعن أبي حنيفة: هو ما يجتمع فيه مرافق أهله دنيا ودينا.وعن أبي يوسف: كل موضع فيه أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر تجب على أهله الجمعة، وهكذا روى الحسن عن أبي حنيفة في كتاب صلاته وفيه أيضا، قال سفيان الثوري: المصر الجامع: ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة كبخارى وسمرقند.وقال الكرخي: المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود، ونفذت فيه الأحكام، وهو اختيار الزمخشري، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما سمعت إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم فلم يسعهم فهو مصر جامع، وعن أبي حنيفة: هو بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق، ويرجع الناس إليه فيما وقعت لهم من الحوادث، وهو اختيار صاحب "التحفة".وقال أبو يوسف في "نوادر ابن شجاع": إذا كان في القرية عشرة آلاف فهو مصر، وعن بعض أصحابنا: المصر ما يعيش فيه كل صانع بصناعته ولا يحتاج إلى التحول إلى صنعة أخرى.

وفي "المستصفى": أحسن ما قيل فيه إذا وجدت فيه حوائج الدين وهو القاضي والمفتي والسلطان فهو مصر جامع، وعن أبي حنيفة: المصر كل بلدة فيها سكك وأسواق ووال ينصف المظلوم من ظالمه وعالم يرجع إليه في الحوادث وهو الأصح."

(كتاب الصلاة، باب صلوة الجمعة، شروط صحة الجمعة، صلوة فى القرى: 3/ 45، ط: دارالكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100272

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں