بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 ذو القعدة 1445ھ 16 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں میں جمعہ کا قیام


سوال

 ہمارے گاؤں کی آبادی مرد بچے بوڑہے عورتیں کل ملا کر 3000 کے لگ بھگ ہیں، اس گاوں میں 6 مساجد ہیں 5 میں جمعہ ہوتا ہے اور ایک محلہ ہے جس میں 60 گھر ہیں اور اس مسجد والے نمازی بھی اپنی مسجد میں جمعہ کی نماز کو اد اکرنا شروع کردیا ہے، قرآن اور حدیث کی روشنی میں بتائیے گا کہ کتنی آبادی والے گاؤں پر جمعہ پڑھنا جائز ہے؟ اور  وہ شر ائط کون کون سی ہیں؟

جواب

  جوازِ  جمعہ کے لیے  مصر ہونا یا فنائے مصر کا ہونا یا قریہ کبیرہ (بڑا گاؤں) کا ہونا شرط ہے، قریہ کبیرہ سے مراد یہ ہے کہ وہ گاؤں اتنا بڑا ہو جس کی مجموعی آبادی کم از کم ڈھائی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہو، اس گاؤں میں ایسا بڑا بازار ہو، جس میں روز مرہ کی تمام اشیاء با آسانی مل جاتی ہوں، اس گاؤں میں ڈاک خانہ، ہسپتال، اور قاضی /پنچایت کا نظام موجود ہو ۔ اور جس گاؤں میں یہ شرائط نہ پائی جائیں تو اس جگہ جمعہ وعیدین کی نماز قائم کرنا جائز نہیں۔لہذا صورت مسئولہ میں اگر مذکورہ محلہ  گاؤں کا حصہ ہے،علیحدہ گاؤں نہیں تو  جس گاؤں کی آبادی تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے، تمام ضروریات اس میں  میسر ہیں تو اس جگہ نمازِ جمعہ  اور عیدین  کی جماعت قائم کرناجائزہے،باقی جمعہ کا ایک مقصد مسلمانوں کا اجتماع اور اس کی شان وشوکت کا اظہار  بھی ہوتا ہے،اس لیے جب گاؤں کی پانچ مساجد میں جمعہ ہورہاہے تو چھٹی مسجد میں  جمعہ کے قیام کی ضرورت نہیں،تاہم اگر اس مسجد میں جمعہ قائم کرلیا تو ادا ہوجائے گا،البتہ اگر مساجد چھوٹی ہیں یا کافی فاصلہ پر ہیں تو ضرورت کی وجہ سے چھٹی مسجد میں جمعہ کے قیام میں کوئی حرج نہیں۔

اور اگر  یہ محلہ گاؤں کا حصہ نہیں ہے،بلکہ علیحدہ گاؤں ہےاور اس میں  مذکورہ بالا شرائط نہیں پائی جاتی تو اس محلہ میں نماز جمعہ کا قیام جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وعبارة القهستاني تقع فرضا في القصبات والقرى الكبيرة التي فيها أسواق  وفيما ذكرنا إشارة إلى أنه لا تجوز في الصغيرة التي ليس فيها قاض ومنبر وخطيب كما في المضمرات والظاهر أنه أريد به الكراهة لكراهة النفل بالجماعة؛ ألا ترى أن في الجواهر لو صلوا في القرى لزمهم أداء."

(باب الجمعۃ،ج2، ص139،ط:سعید)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

"جمعہ کا ایک اہم مقصد اظہار شوکت ہےجو بڑی جمعیت کے ساتھ ایک جگہ ادا کرنے سے زیادہ واضح طور پر حاصل ہوتا ہے بلا ضرورت جگہ جگہ جمعہ کرنے سے یہ مقصد زیادہ حاصل نہیں ہوتا،اس لئے یہ طریقہ ناپسند ہے۔"

(با ب صلاۃ الجمعہ،ج6 ،ص190،فاروقیہ)

فقط واللہ اعلم

 


فتوی نمبر : 144409101555

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں