بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گندے خیالات کی وجہ سے منی نکلنے کا حکم


سوال

اگر گندے خیالات کی وجہ سے منی کا قطرہ نکل جائے تو غسل کرنا ضروری ہے یا غسل کیے بغیر اسی حالت میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر گندے خیالات کی وجہ سے منی کا قطرہ شہوت اور لذت کے ساتھ نکل جائے تو اس کے خروج سے غسل فرض ہوجاتا ہے،اور غسل کیے بغیر جنابت کی حالت میں نماز اور دیگر عبادات بجالانا جائز نہیں ہے۔

نیز اپنے ذہن کو گندے خیالات سے آلودہ کرنا اور غلط تصورات قائم کرکےجنسی تسکین پوری کرنا درست نہیں ہے، اس پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے، ایک  حدیث میں آتا ہے کہ "آنکھوں کا زنا دیکھنا (بد نظری) ہے، کانوں کا زنا سننا ہے، اور زبان کا زنا (فحش) گفتگو کرنا ہے، ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے ، پیروں کا زنا چلنا ہے اور دل تمنا کرتا اور خواہش کرتا ہے اور شرم گاہ  اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے"،اس لیے دل و دماغ میں قائم کیے جانے والے غلط تصورات جن کے کرنے کا بندہ ارادہ و عزم رکھتاہو وہ بھی گناہ شمار ہوں گے؛ لہذا اپنے ارادے سے ایسے تصورات و خیالات سے اجتناب کیا جائے، اور ایسے وساوس کے موقع پر اس دعا کا اہتمام کرنا چاہیے:

" اَللّٰهُمَّ اجْعَلْ وَسَاوِسَ قَلْبِيْ خَشْیَتَکَ وَ ذِکْرَکَ وَاجْعَلْ هِمَّتِيْ وَ هَوَايَ فِیْمَا تُحِبُّ وَ تَرْضٰی".

مرقاۃ المفاتیح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (إن الله كتب على ابن آدم حظه من الزنا، أدرك ذلك لا محالة، فزنا العين النظر، وزنا اللسان المنطق، والنفس تمنى وتشتهي، والفرج يصدق ذلك، ويكذبه) متفق عليه. وفي رواية لمسلم قال: (كتب على ابن آدم نصيبه من الزنا مدرك ذلك لا محالة، العينان زناهما النظر، والأذنان زناهما الاستماع، واللسان زناه الكلام، واليد زناها البطش، والرجل زناها الخطا، والقلب يهوى ويتمنى، ويصدق ذلك الفرج، ويكذبه).

(والقلب يهوى) : بفتح الواو أي: يحب، ويشتهي (ويتمنى، ‌ويصدق ‌ذلك) أي: ما ذكر من المقدمات أي: ما تتمناه النفس، وتدعو إليه الحواس، وهو الجماع. (الفرج) أي: يوافقه، ويطابقه بالفعل (ويكذبه) أي: بالترك، والكف عنه، فإن تركه خوفا من الله فيثاب عليه، وإن تركه اضطرارا لا يعاقب عليه فقط."

(كتاب الإيمان ، باب الإيمان بالقدر، ج:1، ص:158، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الجنابة وهي تثبت بسببين أحدهما خروج المني على وجه الدفق والشهوة من غير إيلاج باللمس أو النظر أو الاحتلام أو الاستمناء."

(كتاب الطهارة، الباب الثاني، الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل، ج:1، ص:14، ط:دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وفرض) الغسل (عند) خروج (مني) من العضو وإلا فلا يفرض اتفاقا؛ لأنه في حكم الباطن (منفصل عن مقره)...(بشهوة) أي لذة ولو حكما كمحتلم."

(كتاب الطهارة، باب الغسل، ج:1، ص:160، ط: سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144407100420

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں