بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گندم کے غلے کی بیع کا حکم


سوال

گندم کے غلے کو گندم کے غلے کے عوض ادھار لینا کیسا ہے قدوری شریف باب الربوا میں لکھا ہوا ہے کہ ناجائز ہے اور آپ کے ہاں فتوی جاری ہے کہ جائز ہے۔

"گندم کو گندم کے بدلے ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ،البتہ رقم کے بدلے ادھار فروخت کرنے کی گنجائش ہے،باقی خرید وفروخت کے معاہدے کے بغیر کسی کو گندم بطور قرض دینا شرعًا جائز ہے۔

فقط واللہ اعلم"

فتوی نمبر : 144007200332 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

"گندم کے بدلے گندم ادھار لینا جائز ہے، بشرطیکہ ادھار لی گئی گندم کی مقدار معلوم و متعین ہو اور اتنی ہی گندم واپس کی جائے،اندازے سے گندم کی ادھار کا لین دین جائز نہیں ہے۔ مذکورہ صورت میں گندم کی مقدار سو کلو کی بوری کی صورت میں متعین ہے، لہٰذا یہ معاملہ جائز ہے۔

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (5 / 167):

" (قوله :استقراض العجين وزناً يجوز ) هو المختار، مختار الفتاوى. واحترز بالوزن عن المجازفة فلايجوز".

فقط واللہ اعلم"

فتوی نمبر : 144007200410 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن۔

جواب

واضح رہے کہ گندم  میں ادھار کا معاملہ کرنے کی تین ممکنہ صورتیں بنتی ہیں، جن کے جواز و عدمِ جواز کا بیان درج ذیل ہے:

1) گندم کی ادھار خرید و فروخت گندم کے عوض، یہ صورت ناجائز ہے، اور اس کی صراحت  خود رسول اللہ ﷺ نے کی ہے۔

مشکات المصابیح میں ہے:

وعن عبادة بن الصامت أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «لا تبيعوا الذهب بالذهب ولا الورق بالورق ولا البر بالبر ولا الشعير بالشعير ولا التمر بالتمر ولا ‌الملح ‌بالملح إلا سواء بسواء عينا بعين يدا بيد ولكن بيعوا الذهب بالورق والورق بالذهب والبر بالشعير والشعير بالبر والتمر بالملح والملح بالتمر يدا بيد كيف شئتم» . رواه الشافعي"

(باب الربا، ج:2، ص:858، ط:قدیمی)

قدوری میں اسی صورت کو ناجائز کہا گیاہے، اور جامعہ کے فتوی میں بھی اس کو ناجائز ہی لکھاگیاہے، اس کے علاوہ دو صورتیں ہیں جن کو جائز قرار دیا گیا ہے، لہذا قدوری کی  عبارت اور جامعہ کے فتوے میں کوئی تضاد نہیں۔

2) گندم کی ادھار خرید و فروخت  ثمن (رقم)  کے عوض، یہ صورت  جائز ہے۔

3) گندم  بغیر کسی معاہدہ کے بطور قرض  دینا،  یہ صورت بھی شرعا جائز ہے، بشرطیکہ کے گندم کی مقدار معلوم ہو۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرض اور بیع کا حکم ایک نہیں ہے قرض جائز ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ویجوز القرض فیما ھو من ذوات الامثال کالمکیل والموزون."

 (الباب التاسع عشر فی القرض و الاستقراض، ج:3، ص:201، ط:رشیدیہ)

  فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌استقراض ‌العجين ‌وزنا ‌يجوز) هو المختار مختار الفتاوى."

(‌‌باب المرابحة والتولية‌‌‌‌، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:167، ط:سعید)

وفیہ ایضاً:

"(‌وصح) ‌القرض (‌في ‌مثلي) هو كل ما يضمن بالمثل عند الاستهلاك."

(‌‌باب المرابحة والتولية‌‌‌‌، فصل في القرض، ج:5، ص:161 ، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144412100101

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں