میں دوسری دکان سےگندم خریدتاہوں ، قیمت بھی اداکر دیتاہوں، لیکن میں اسے اپنی جگہ منتقل نہیں کرتا، بلکہ وہ ابھی تک اسی دکان میں رکھی ہوتی ہے جہاں سے میں خریدتا ہوں۔ اور وہیں سے آگے فروخت کر دیتا ہوں۔
کیا اس طرح خرید و فروخت کرنا، یعنی کسی چیز کو اپنی تحویل میں لیے بغیر آگے فروخت کرنا، شریعت کے مطابق جائز ہوگا یا نہیں؟
واضح رہے کہ کوئی بھی منقولی چیز خریدنے کے بعد اپنے قبضہ میں لینے سے پہلے آگے بیچنا شرعاً بيع قبل القبض ہونے کی وجہ سےجائز نہیں ہے۔لہذا صورتِ مسئولہ میں گندم کی بوریوں پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت کرنا جا ئز نہیں ہوگا۔
اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہےمشتری (سائل) با ئع کے گودام میں یا دکان پر چلا جائے اور بائع اس کے لیے سامان علیحدہ کر کے اس کو کہہ دے کہ یہ تمہارا سامان ہے اٹھا لو، تو اس سےبھی خریدار کاقبضہ ثابت ہو جائے گا،اس کے بعد سائل کے لیے مذکورہ گندم و غیرہ آگے فروخت کرنا جائز ہوگا، اگرچہ اس کی خریدی گندم دوکاندار کے پاس ہی رکھی ہو۔
مرقاة المفاتيح میں ہے:
"وعن ابن عباس قال: أما الذي نهى عنه النبي صلى الله عليه وسلم فهو الطعام) أي جنس الحبوب (أن يباع حتى يقبض) بصيغة المجهول قال ابن عباس ولا أحسب) بكسر السين وفتحها أي لا أظن (كل شيء إلا مثله) أي مثل الطعام في أنه لا يجوز للمشتري أن يبيعه حتى يقبضه. قال ابن الملك: والأظهر أنه من قول ابن عباس. (متفق عليه)."
(كتاب البيوع، باب المنهي عنها من البيوع، 6/ 67، ط: دار الكتب العلمية بيروت)
تبین الحقائق میں ہے:
"قال رحمه الله (لا بيع المنقول) أي لا يجوز بيع المنقول قبل القبض لما روينا ولقوله عليه الصلاة والسلام «إذا ابتعت طعاما فلا تبعه حتى تستوفيه» رواه مسلم وأحمد ولأن فيه غرر انفساخ العقد على اعتبار الهلاك قبل القبض؛ لأنه إذا هلك المبيع قبل القبض ينفسخ العقد فيتبين أنه باع ما لا يملك والغرر حرام لما روينا."
(کتاب البیوع، باب التولية، فصل بيع العقار قبل قبضه، ج:4 ص:80 ط: رشیدیه)
درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"أما إذا سلم البائع المبيع إلى شخص أمر المشتري بتسليمه إليه فقد حصل القبض كما لو سلم البائع المبيع إلى المشتري نفسه فإذا أمر المشتري البائع قبل القبض بتسليم المبيع إلى شخص معين وسلم البائع المبيع إلى ذلك الشخص يكون المشتري قد قبض المبيع (انظر المادة 253) ... تسليم المبيع يحصل بالتخلية وهو أن يأذن البائع للمشتري بقبض المبيع مع عدم وجود مانع من تسليم المشتري إياه."
(کتاب البیوع، الباب الخامس الفصل الاول فی بیان حقيقة التسليم والتسلم وکیفیتھما، ج: 1، ص: 251، ط: دار عالم الکتب)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101993
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن