بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 ذو القعدة 1445ھ 18 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گندم پسوانے کی اجرت اسی گندم سے دینے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں،  بلکہ ہماری معلومات کے مطابق عمومِ بلوی ہے کہ جب گندم کا آٹا بنوایا جاتا ہےتو وہ اجرت میں کچھ آٹا اور کچھ پیسے لیتے ہیں،  پھر ہمیں پتہ چلا کہ اجرت میں آٹا لینا ناجائز ہے، ہم نے ایک مفتی صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تھاتو ناجائز ، لیکن  اب عمومِ بلوی کی وجہ سے جائزہے ۔ ایک اور مفتی صاحب سے بات ہوئی تو انہوں  نے فرمایا : آٹا تو ناجائز ہی ہے  ، آپ ایسے کیا کریں کہ  گاہک کوبتاکر بطور اجرت کچھ گندم  (ایک من پر تقریباً 2کلو )  نکال لیا کریں، اس طرح یہ ناجائز نہیں ہوگا،  بلکہ جائز ہوگا۔   اس تفصیل کی روشنی میں آپ سے التماس ہےکہ آپ قرآن وسنت کے مطابق ہماری رہنمائی فرمائیں !

جواب

واضح رہے  کہ چکی پر گندم پسوا کر اجرت  دینے کا جائز اور بہتر طریقہ یہ ہے کہ گندم پسوانے سے پہلے   طے کر لیں کہ میں  فی ’من‘  (مثلًا)  گندم پیسنے  کے اتنے روپے دوں گا۔

اگر  اجرت  اس طرح  طے کی کہ جتنی مقدار گندم کی میں پسواؤں  گا اس میں سے دسواں حصہ یا بیسواں حصہ میں بطورِ اجرت دوں گا  ( جیسا کہ یہ صورت بہت سی جگہوں میں رائج بھی ہے) تو اس طرح کا معاہدہ کرنے سے یہ اجارہ فاسد ہوجائے گا، کیوں کہ پیسے جانے والی گندم میں سے دسواں یا بیسواں حصہ بطورِ اجرت طے کرنا  یہ ’’قفیز طحان‘‘ کے حکم میں داخل ہے، جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے، یعنی ’’ اجرت من جنس العمل‘‘  ہونے  (یعنی اجیر کے عمل سے حاصل ہونے والی چیز کو ہی اجرت بنانے) کی وجہ سے یہ اجارہ  فاسدہ ہے؛  اس لیے کہ جو چیز فی الحال موجود نہیں، بلکہ اجیر (مزدور) کے عمل سے حاصل ہوگی، اس ہی  کو اجیر کے لیے اجرت مقرر کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسری وجہ ایسے معاملہ کے فاسد ہونے کی یہ بھی ہے کہ اس میں اجرت متعین نہیں،  بلکہ مجہول ہے۔

ہاں اگر اجرت  شروع فی ’من‘ یا فی ’بوری‘ کے حساب  سے  متعین گندم وغیرہ کی مقدار طے کرلی جائے، مثلاً  ایک من گندم پیسنے پر ایک سیر یا دو سیر گندم بطور اجرت طے کرلی  جائے، اور  یہ شرط نہ لگائی جائے کہ پیسی جانے والی گندم سے ہی مذکورہ اجرت دی جائے گی، بلکہ مطلق الفاظ میں طے کیا جائے تو  یہ جائز ہے ؛ اگرچہ بعد میں اسی غلہ سے مزدوری دے دی جائے۔

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

’’وَكَذَا قَالُوا: لَايجوز إِذا اسْتَأْجر حماراً يحمل طَعَاماً بقفيز مِنْهُ، لِأَنَّهُ جعل الْأجر بعض مَا يخرج من عمله، فَيصير فِي معنى قفيز الطَّحَّان وَقد نهى عَنهُ صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، وَأخرجه الدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيّ من حَدِيث أبي سعيد الْخُدْرِيّ، قَالَ: نهى عَن عسب الْفَحْل وَعَن قفيز الطَّحَّان، وَتَفْسِير: قفيز الطَّحَّان: أَن يسْتَأْجر ثوراً ليطحن لَهُ حِنْطَة بقفيز من دقيقه، وَكَذَا إِذا اسْتَأْجر أَن يعصر لَهُ سمسماً بِمن من دهنه أَو اسْتَأْجر امْرَأَة لغزل هَذَا الْقطن أَو هَذَا الصُّوف برطل من الْغَزل، وَكَذَا اجتناء الْقطن بِالنِّصْفِ، ودياس الدخن بِالنِّصْفِ، وحصاد الْحِنْطَة بِالنِّصْفِ، وَنَحْو ذَلِك، وكل ذَلِك لَا يجوز‘‘.

(کتاب الزراعۃ، باب المزارعۃ بالشطر و نحوہ، ج:۱۲ ؍ ۱۶۶ ،ط: دار احیاء التراث )

فتاویٰ شامی میں ہے:

’’(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثوراً ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان وقدمناه في بيع الوفاء. والحيلة أن يفرز الأجر أولاً أو يسمي قفيزاً بلا تعيين ثم يعطيه قفيزاً منه فيجوز.

(قوله: والحيلة أن يفرز الأجر أولاً) أي ويسلمه إلى الأجير، فلو خلطه بعد وطحن الكل ثم أفرز الأجرة ورد الباقي جاز، ولا يكون في معنى قفيز الطحان إذ لم يستأجره أن يطحن بجزء منه أو بقفيز منه كما في المنح عن جواهر الفتاوى. قال الرملي: وبه علم بالأولى جواز ما يفعل في ديارنا من أخذ الأجرة من الحنطة والدراهم معاً، ولا شك في جوازه اهـ. (قوله: بلا تعيين) أي من غير أن يشترط أنه من المحمول أو من المطحون فيجب في ذمة المستأجر، زيلعي.‘‘

(کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:۶ ؍ ۵۶ ،۵۷ ،۵۸ ، ط:سعید)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

’’صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثوراً ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنساناً ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد، والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزاً من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة، أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد؛ لأن الدقيق إذا لم يكن مضافاً إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشاراً إليه يجوز أن يكون ديناً في الذمة، ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط‘‘.

(کتاب الاجارۃ، الباب الخامس عشر فی بیان ما یجوز من الاجارۃ و ما لا یجوز،ج:۴ ؍۴۴۴،ط:رشیدیۃ)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201558

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں