بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گانا سننے کا حکم


سوال

میں ہاسٹل میں رہتا ہوں، میرا ایک روم میٹ گانے سننے کا عادی ہے، میں اسے بارہا کہہ چکا ہوں کہ جب گانے سنو تو ہینڈ فری لگا لیا کرو کبھی وہ لگا لیتا ہے تو کبھی نہیں لگاتا، کیونکہ اگر میں اسے گانے سننے سے روکتا ہوں تو مجھے فتنہ کا اندیشہ ہے، گانوں کی آواز جیسے ہی میرے کانوں میں پڑتی ہے مجھے شدید روحانی تکلیف ہوتی ہے، جو کہ ناقابل برداشت ہو جاتی ہے، براہ مہربانی کوئی حل تجویز فرمائیں، اور دعا بھی کریں۔

جواب

 گاناگانا، سننا اور سنانا سب ناجائزاور حرام ہے۔

قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا أُولَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُهِينٌ ﴾[لقمان: 6 ]

ترجمہ: اور بعض لوگ ایسے  بھی ہیں جو ان باتوں کے خریدار بنتے ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی ہیں، تاکہ اللہ کی یاد سے بے سمجھے گم راہ کرے اور اس کی ہنسی اڑائے ، ایسے لوگوں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس آیت کے بارے میں پوچھا جاتا تو آپ قسم کھا کر فرماتے تھے کہ  "لهو الحدیث"سے مراد گانا ہے، یہی تفسیر حضرت عبد اللہ بن عباس، حضرت جابر رضی اللہ عنہم ، حضرت  عکرمہ، سعید بن جبیر، مجاہد ، مکحول ، حسن بصری اورعمرو بن شعیب  رحمہم اللہ جیسے جلیل القدر حضرات سے منقول ہے۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ  وسلم نے ارشاد فرمایا : گانا دل میں نفاق کو اس طرح پیدا کرتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے۔

حضرت نافع سے روایت ہے کہ میں ایک جگہ حضرت  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ جارہا تھا، انہوں نے بانسری کی آواز سنی تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیں اور راستے سے ایک طرف ہوکر چلنے لگے، دور ہوجانے کے بعد مجھ سے کہا:اے نافع کیا تم کچھ  سن رہے ہو؟ میں نے کہا : نہیں، انہوں نے کان سے انگلیاں نکالیں اور فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ جارہا تھا،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بانسری کی آواز سنی اور ایسے ہی کیا جیسا میں نے کیا، یعنی: کانوں میں انگلیاں ڈال لی تھی۔ 

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کو چاہیے کہ وہ اپنے روم کے ساتھی کو نرمی اور خوش اسلوبی سے سمجھائے اور گانے سننے سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا فرامین میں جو وعیدات وارد ہوئی ہیں وہ سنائیں،امید ہے کہ وہ باز آ جائے گا اور اس کے لیے دعا بھی کریں کہ وہ گانا سننا ہی چھوڑ دے،اگر پھر بھی باز نہ آئے تو انتظامیہ کو مطلع کر کے کمرہ تبدیل کروا لیں۔

حدیث شریف میں ہے:

"وعن  جابر قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " الغناء ينبت النفاق في القلب كما ينبت الماء الزرع " . رواه البيهقي في " شعب الإيمان..... عن نافع قال: كنت مع ابن عمر في طريق فسمع مزمارا فوضع أصبعيه في أذنيه وناء عن الطريق إلى الجانب الآخر ثم قال لي بعد أن بعد: يا نافع هل تسمع شيئا؟ قلت: لا فرفع أصبعيه عن أذنيه قال: كنت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فسمع صوت يراع فصنع مثل ما صنعت. قال نافع: فكنت إذ ذاك صغيرا. رواه أحمد وأبو داود".

 

(باب البيان والشعر، الفصل الثالث، ج: 3، صفحہ: 1355، رقم الحدیث: 4810 و4811، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

تفسير ابن كثيرمیں ہے:

"قال ابن جرير: حدثني يونس بن عبد الأعلى، أخبرنا ابن وهب، أخبرني يزيد بن يونس، عن أبي صخر، عن أبي معاوية البجلي، عن سعيد بن جبير، عن أبي الصهباء البكري، أنه سمع عبد الله بن مسعود -وهو يسأل عن هذه الآية:﴿ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ »- فقال عبد الله: الغناء، والله الذي لا إله إلا هو، يرددها ثلاث مرات.

حدثنا عمرو بن علي، حدثنا صفوان بن عيسى، أخبرنا حُمَيْد الخراط، عن عمار، عن سعيد بن جبير، عن أبي الصهباء: أنه سأل ابن مسعود عن قول الله: ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ ﴾، قال: الغناء.

وكذا قال ابن عباس، وجابر، وعِكْرِمة، وسعيد بن جُبَيْر، ومجاهد، ومكحول، وعمرو بن شعيب، وعلي بن بَذيمة.وقال الحسن البصري: أنزلت هذه الآية:

﴿وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ﴾ في الغناء والمزامير".

(تفسير القرآن العظيم (ابن كثير)،ج: 6، صفحہ: 295 و296، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102402

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں