بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گانا سننے سے متعلق ایک وعید کی تحقیق


سوال

یہ بات کس حدیث سے ثابت ہے کہ دنیا میں گانے سننے والے کے کانوں میں سیسہ پگھلا کے ڈالا جائے گا؟ 

جواب

سوال میں مذکور روایت  تلاش کے بعد درج ذیل کتب میں ملی ہے:

١- "جزء فيه من حديث أبي الحسين عبد الوهاببن الحسن الكلابي عن شيوخه" میں روایت کے الفاظ یہ ہیں:

"من قعد إلى قينةٍ ليستمع منها، صب في أذنيه الآنك يوم القيامة".

(جزء فيه من حديث أبي الحسين عبد الوهاب بن الحسن الكلابي عن شيوخه، بتحقيق الشيخ مشهور بن حسن آل سلمان، دار الأثرية، ١٤٢٧ھ) 

٢- ابن حزم اندلسی (متوفی۴۵۶ﻫ)نے”المحلی“میں اس روایت کو نقل کیاہے،اس  روایت کے الفاظ یہ ہیں:

"من جلس إلى قينة فسمع منها صبّ الله في أذنيه الآنك يوم القيامة".

(المحلى  لأبی  محمد  علي بن أحمد بن سعيد بن حزم الأندلسي: ٩/ ٥٧، كتاب الوصايا، باب:لاتجوز الوصية بأكثر من الثلث، ط: دار الفكر)

​٣- حافظ ابن عساکر(متوفی ۵۷۱ھ) نے ”تاریخدمشق“ میں اس نوع کی   دو روایتیں نقل کی ہیں،پہلی روایت کے الفاظیہ ہیں:

"من استمع إلى قينة صب في أذنيه الآنك يوم القيامة".

دوسری  روایت کے الفاظ درج ذیل ہیں:

"من قعد إلى قينة يستمع منها صب الله في أذنيهالآنك يوم القيامة".

(تاريخ مدينة دمشق لابن عساکر: 51/263، رقم الترجمة: 6064، ط: دار الفكر، 1418ﻫ)

اس روايت پر ائمہ  كا كلام:

اس روايت كا مدار درج ذیل سند پر ہے:

"عن أبي نعيم الحلبي، حدثنا عبد الله بن المبارك، حدثنا مالك بن أنس، عن محمد بن المنكدر، عن أنس رضي الله عنه."

  امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ  (المتوفی ۲۴۱ھ ) سے (اس سند) عن  ابن مبارك، عنمالك بن أنس، عن ابن المنکدر، عن أنس، عن النبي صلى اللہ علیه و آله و سلمسے مروی روایت”من جلس إلى قينة صبّ في أذنه الآنك يوم القيامة"  (جو شخص  گانا گانے  والی عورت کے پاس بیٹھا،اس کے کان میں قیامت کے دن سیسہ ڈالاجائے گا)کے متعلق پوچھا گیا کہ اس کو حلب کےایک شخص نے روایت کیا ہے ، اور لوگوں نے اس کی تعریف کی ہے؟امام موصوف  نے فرمایا:یہ حدیث باطل ہے۔

(الجامع في العلل ومعرفة الرجال لأحمد بن حنبل،رواية: المروذيوغيره،ص:143، تحقیق:الدكتور وصى الله بن محمد عباس، ط:الدارالسلفية، بومباى – الهند، الطبعة الأولى، 1408 هـ)

​علامہ ابن حزم اندلسی ظاہری (المتوفی۴۵۶ھ) نے  بھی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد اس پر موضوع قرار دیا ہے ، چنانچہ  وہ فرماتے ہیں:

«هذا حديث موضوع مركب فضيحة، ما عُرف قط من طريق أنس، ولا من رواية ابن المنكدر، ولا من حديث مالك،ولا من جهة ابن المبارك، كل من ابن المبارك إلى ابن شعبان  مجهولون".(حوالہ مذکورہ )

یعنی" یہ حدیث موضوع اور من گھڑت ہے،نہ تو  یہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کےطریق سے مرویہ ہے،اور نہ ہی ابن المنکدر، امام مالک اور ابن مبارکرحمہم اللہ تعالیٰ کی روایت سے اس کا تعلق ہے، اور ابن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ کے بعد سے لےکر ابن شعبان تک تمام راوی مجہول ہیں"۔

علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ”العلل المتناهية  فی الأحاديث الواهية“میں اس روایت کو  ذکر کرنے کے بعد امام احمد بن حنبل رحمہ اللہتعالیٰ کا قول نقل کیا  ہے: "هَذَا حديث باطل"یعنییہ حدیث باطل ہے ۔

(العلل المتناهية في الأحاديث الواهية للإمام ابن الجوزي، ص:٧٨٦، رقم الحدیث :١٣١١، ط: عباس أحمد الباز، مكة المكرمة، الطبعة الأولى، ١٤٠٣ھ)

ائمہ کرام کے  مذکورہ اقوال کی روشنی میں  جب تک کوئی معتبر سند نہ ملے جائے ، اس روایت کو بیان کرنے سے احتراز لازم ہے۔  البتہ اس روایت کے علاوہ بہت سی احادیث میں گانا سننے اور موسیقی کے آلات وغیرہ کے متعلق وعیدیں آئی ہیں،  مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "اسلام اور موسیقی" میں اس موضوع کی کافی روایات یکجا کردی ہیں۔ فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144311101215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں