بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیم کے کوئنز BC دھوکا دہی سے حاصل کرنے کا حکم


سوال

 پب جی گیم میں گیم کے پیسے BC ہوتے ہیں، اور یہ  اصلی پیسوں سے خریدنے پڑتے ہیں، ایک لڑکی  گیم میں لڑکوں سے کہتی تھی: مُجھے BC دو ،پھر میں تم سے دوستی کروں گی، اور جب وہ اس کو BCدے  دیتے، تو وہ ان کو دھوکا دے کر بھاگ جاتی، اب وہ لڑکی اس کام سے توبہ کر چکی ہے، لیکن اب جن لڑکوں کو دھوکا دیا تھا، ان کا کچھ پتہ نہیں ہے ،وہ لڑکے اپنی جمع پونجی سے اس کو خرید کر دیتے تھے، اب اس  لڑکی کو  بھی یاد ہی نہیں کہ کتنے کتنے  BCکن کن  لڑکوں سے لیے تھے ۔

اب پوچھنا یہ ہے کہ جو پیسے  مختلف لڑکوں سے لوٹے تھے دھوکہ سے وہ یاد بھی نہیں کے کتنے تھے ؟تو اب لڑکی کیا کرے ؟لڑکی نے جتنے پیسے لیے تھے اتنے پیسے کسی غریب کو دینے چاہیے، لیکن اس کو یاد نہیں کتنے لیے تھے، اس صورت میں  یہ لڑکی کیا کرے؟

جواب

صورت مسئولہ میں سائلہ کا مذکورہ آن لائن گیم کھیلنا، نامحرموں سے بات چیت کر کے  ان سے جھوٹے وعدہ کرنا درست نہ تھا، لہذا سائلہ پر توبہ کرنا لازم ہے، نیز سائلہ نے  لوگوں سے دھوکا دہی کرکے  آن لائن گیم کے جو کوائن "BC" لیے ہیں، اس کے سبب سائلہ پر ان  لوگوں کو پیسے دینا یا ان "BC" کے بقدر رقم صدقہ کرنا لازم نہیں ہے، کیوں لوگوں نے سائلہ  کو اصل رقم نہیں دی بلکہ "BC" دیے ہیں، اور "BC" شرعًا ثمن  وکرنسی نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ."[المائدة :۹٠]

ترجمہ :"اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو۔"

  روح المعانی میں ہے:

"ولهو الحديث على ما روي عن الحسن: كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها".

 ( سورۃ لقمان،11 / 66،  ط:دار الکتب العلمیة)

فتاوی شامی میں ہے:

 "و ظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها."

(کتاب الصلاۃ،مطلب؛مکروہات الصلاۃ،667/1،ط:سعید)

أحکام القرآن  میں ہے:

"ولا خلاف بين أهل العلم في تحريم القمار وأن المخاطرة من القمار، قال ابن عباس: إن المخاطرة قمار، وإن أهل الجاهلية كانوا يخاطرون على المال، والزوجة، وقد كان ذلك مباحاً إلى أن ورد تحريمه".     

(سورۃ البقرۃ، باب تحریم المیسر،1/ 398، ط: دار الکتب العلمیة بیروت - لبنان)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: لأنه يصير قماراً)؛ لأن القمار من القمر الذي يزداد تارةً وينقص أخرى، وسمي القمار قماراً؛ لأن كل واحد من المقامرين ممن يجوز أن يذهب ماله إلى صاحبه، ويجوز أن يستفيد مال صاحبه وهو حرام بالنص".

 ( کتاب الحظر والاباحة،403/6،ط :سعید)

تکملۃ فتح الملهم میں ہے:

"فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام أو مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذلك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه."

(قبیل کتاب الرؤیا،435/4، ط: دارالعلوم کراچی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم، فلذا فسد البيع بجعلها ثمنا، وإنما لم ينعقد أصلا بجعلها مبيعا؛ لأن الثمن غير مقصود بل وسيلة إلى المقصود، إذ الانتفاع بالأعيان لا بالأثمان."

(كتاب البيوع،501/4، ط: سعيد)

 فتاوی شامی میں ہے:

"والمال كما صرح به أهل الأصول ما يتمول ويدخر للحاجة، وهو ‌خاص ‌بالأعيان فخرج به تمليك المنافع. "

(کتاب الزکوۃ،257/2،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال)۔۔(والمعدوم كبيع حق التعلي) أي علو سقط؛ لأنه معدوم. (قوله والمعدوم كبيع حق التعلي) قال في الفتح: وإذا كان السفل لرجل وعلوه لآخر فسقطا أو سقط العلو وحده فباع صاحب العلو علوه لم يجز؛ لأن المبيع حينئذ ليس إلا حق التعلي، وحق التعلي ليس بمال؛ لأن المال عين يمكن إحرازها وإمساكها ولا هو حق متعلق بالمال بل هو حق متعلق بالهواء، وليس الهواء مالا يباع والمبيع لا بد أن يكون أحدهما."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، 50/5، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وعبارة الصيرفية هكذا سئل عن بيع الخط قال: لا يجوز؛ لأنه لا يخلو إما إن باع ما فيه أو عين الخط لا وجه للأول؛ لأنه بيع ما ليس عنده ولا وجه للثاني؛ لأن هذا القدر من الكاغد ليس متقوما بخلاف البراءة؛ لأن هذه الكاغدة متقومة."

(کتاب البیوع، 517/4،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101084

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں